28 April 2024

Homecolumnلاہور میں سفر کرنا کٹھن ہو گیا

لاہور میں سفر کرنا کٹھن ہو گیا

columnist Raza Kharal

لاہور میں سفر کرنا کٹھن ہو گیا

تحریر: رضا کھرل

سفر وسیلہ ظفر ہے مگر کچھ سفر اب انتہائی صبر آزما ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ دنیا تیز ہورہی ہے یا اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دوسرے کو روندنے پہ تل آئی ہے۔

ہمارے ادب میں بے شمار ایسے منظر نامے ہیں جن میں لوگ ہواخوری کے لیے چہل قدمی کرتے سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ یار لوگ گپیں ہانکتے کلومیٹر یا دو کلو میٹر پیدل چل لیتے تھے۔ جنہیں ٹانگے میسر تھے تو وہ ان کے ذریعے یا سائیکلوں اور اکا دکا کاروں پر سڑکیں ناپتے۔ واپس گھر آتے تو بھی کپڑے اور چہرے میلے نہ ہوتے بلکہ کچھ ہلکا پن محسوس ہوتا ۔

اب کے سفر نامے ایسے نہیں ہیں ۔ اول تو سفر کرنا ہی آسان نہیں ۔ جیب اور طبیعت دونوں پر گراں گزر سکتاہے۔ مجبوری میں سفرتو مان لیا مگر شوق میں یہ سفر صحت مندانہ نہیں رہا ،خاص طور پر لاہور جیسے شہر میں۔ باغوں کا یہ شہر مسلسل خبروں کی ضد میں ہے اور اس وجہ سے کہ یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے اور پچھلے چند سالوں میں متعدد بار دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ لاہوریوں کے لیے باعث شرم ہے مگر کیا کیا جائے ،زندہ دلان خود بھی اس گند کے عادی سے لگتے ہیں۔ اگر عادی نہ ہوتے تو یہ ”معرکہ ” بار بار سرزد نہ ہوتا۔

زیر نظرسفر کی روداد ہے جو فکر معاش کے لیے مجھے کرنا پڑتاہے اور روزانہ جمع خرچ کرکے یہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ مجھے یقین ہے بہت سے زندہ دلان اس تجربے سے روزانہ گزرتے ہونگے۔ ایسا تجربہ جس میں صحت بھی برباد اور پیسہ بھی ۔

سفر کے آغاز کے ساتھ ہی ، غلط سمت سے آنے والے ایک رکشے کا سامنا تھا ۔ پتہ چلا اس کے پیچھے بھی ایک موٹر سائکل سوار ہے ، خداخدا کرکے ایک کلومیٹر سفر طے کیا ، تو ایک ایسے چوک میں پہنچا جو نام کی حد تک تھا ۔ ٹرک سے لےکر موٹر سائیکل تک ، سب اپنے اپنے ”قائدے” سے جارہے تھے بلکہ آرہے تھے اور ان کے قائدے یہ تھے کہ کسی نہ کسی طرح گزرنا ہے چاہے کسی کے اوپر سے ہی کیوں نہ ممکن ہو۔ بھلا اتنے پیسے خرچ کرکے یہ چوک بنانے کی ہی ضرورت کیا تھی ۔ ادھم ہی مچانا ہے تو صرف سڑک ہی کافی ہے۔

چار ارب روپے خرچ کرکے یہ سڑک بنی تھی ۔ تین تین لین والی ، اب ایک لین تو تقریباً غلط پارکنگ والوں ، خوانچہ فروشوں اور دوکانوں کی تجاوزات کی نذر ہوچکی ہے جو باقی بچی ہے اس کے لیے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔۔ سگیاں پل پر پہنچنے سے پہلے ہی معلوم پڑجاتاہے کہ لاہور آگیا ہے ۔

گرد و غبار اس قدر ہوجاتاہے کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ قدیم زمانے کی گھوڑ دوڑ ہورہی ہے ۔ ٹرکوں، بسوں، کاروں رکشوں اور موٹر سائکلوں کے گند کے ساتھ ساتھ اب ٹریکٹر ٹرالیوں کا بھی اضافہ ہوچکاہے۔

یہ گردو غبار ایسے نہیں بنا بلکہ اس کے لیے سینکڑوں ٹریکٹر ٹرالیوں نے دن رات محنت کی ہے ۔ دریائے راوی میں گند اور گند ملی ریت ، گویا ان کے لیے اورمتعلقہ محکموں کے لیے سونے کی کان ہے ۔ جیسے ہی یہ ٹرالیاں سڑک پر آتی ہیں تو ریت بکھیرنے کی ڈیوٹی پر لگ جاتی ہیں ۔

ان کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ جب بھی ریت لے کر سڑک پر آئیں تو ریت ٹرالی کے اندر پوری طرح ڈھکی ہو ، مگر یہ ایسا نہیں کرتے بلکہ ریت کو موٹر سائکل سواروں ارو رکشہ سواروں کے سروں میں ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔

چہرے اور کپڑے اگر ریت سے اٹ جائیں تو یہ بونس سمجھیے۔ ہماری پولیس ا سکے لیے سخت محنت کرتی ہے۔ جب بھی یہ ریت بکھیرو گزرتے ہیں تو آنکھیں بند کرلیتی ہے ۔ اب اگر جیبوں میں ریت کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی “پڑ” جائے تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔

ایسے تو نہیں لاہور دنیا کا گندا ترین شہر بنا۔ معاف کرنا آلودگی بھی گندگی ہی ہے۔ شہر کے اندر داخل ہوتے ہوتے ، جب پوری طرح مت ماری جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک اور پل صراط بھی ہے اور وہ ہے لاہور کی بےہنگم ٹریفک ، جس کا جو جی چاہ رہا ہے وہ کرتا چلا جارہا ہے ۔ دائیں سے بچیں تو بائیں سے گھس جاتے ہیں ۔ اور بس خداخدا کرکے کے ضلع کچہری پہنچے تو گداگروں کی یلغار کا سامنا تھا۔ یہ ہر روز کا معمول ہے ۔ یہ یلغار بھی قانون نافذ کرنے والوں کی چھتر چھایا میں ہوتی ہے۔ ٹریفک کے ستائے لوگ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

نظام کو سیدھا کرنے میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا دخل ہی نہیں وہ صرف بگاڑ سکتے ہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرکے ۔ اس ٹریفک سگنل کی خوبی یہ ہے کہ جوں جوں شامل ڈھلتی ہے یہاں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی بڑھتی چلی جاتی ہے۔

اشارہ بند ہو تو جیسے کھڑے ہونا جرم ہوتاہے اور ساتھ والے ” احساس جرم ” کا بتا کے بھی جاتے ہیں۔ لہٰزا بقول شخصے جہاں رکنا ہے وہاں نہیں رکنا اور جہاں نہیں رکنا وہاں بس رک رک کر چلتے رہنا ہے کیوں کہ ادھر بھی ایسے ہی یار لوگ ہوتے ہیں جنہیں سرخ بھی سبز ہی دکھائی دیتا ہے۔

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔ شکر دوپہر سیکریٹیریٹ کی طرف جانے کا ارادہ ہے تو سمجھیں مشکلیں پہلے سے بھی دوگنی ہیں۔ پوسٹ ماسڑل جنرل والے اشارے سے آگے اصل امتحان ہے۔ سول کورٹ کے باہر سڑک بس اتنی ہی بچتی ہے کہ رینگ رینگ کر چلنا لازم ہے، پارک بعض اوقات اخری لین پر پہنچ جاتی ہے۔ پارکنگ غلط ہے یا اس طرف آنے والے غلط ہیں ، کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔

عدالت بنائی ہے تو پھر پارکنگ کس نے بنانی ہے ؟ انصاف کا حصول یہاں مشکل نہیں مشکل تر ہے کیونکہ انصاف کے لیے عدالت جانا ہی اصل امتحان ہے ۔ سفر ابھی ایک چوتھا ئی بھی نہیں ہوا مگر میری ہمت کی بس ہوگئی ہے ۔

منیر نیازی کے بقول کتنا چلتے اور کتنا تھکتے اور

خواب جو ایک بھی پورا ہوتا خواب نہ تکتے اور

Share With:
Rate This Article