Homecolumnموسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

تحریر:رضا کھرل

گذشتہ چند دنوں میں بارشوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے متعدد واقعات کے نتیجے میں پچیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 39 تک پہنچ چکی ہے ۔ آسمانی بجلی گرنے سے سب سے زیادہ پنجاب میں ہلاکتیں ہوئیں ہیں جن کی تعداد 21 ہے جب کہ بلوچستان میں پانچ افراد جانوں کی بازی ہار چکے ہیں۔

خیبر پختونخواہ سے لے کر بلوچستان کے ساحلوں تک پاکستان کے اکثر علاقوں میں طوفان باد و باراں کے نتیجے میں بھی ایک درجن سے زاید افراد مرچکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد چالیس سے تجاوز کرچکی ہے۔

ان بارشوں سے سرکاری اور نجی املاک کا بھی بے تحاشا نقصان ہوچکا ہے جب کہ بارشیں ابھی تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ بارشیں آئیندہ ہفتے تک جاری رہ سکتی ہیں۔ پنجاب میں آسمانی بجلی سے ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں ضلع رحیم یار خان میں ہوئیں ہیں۔ سات افراد جن میں بچے بھی شامل تھے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ہفتے کے روز رحیم یار خان کے نواحی علاقے رکن پور میں دو بچے آسمانی بجلی کی زد میں آئے اور فوت ہوگئے ۔ بستی کھوکھراں میں میاں بیوی گندم کی کٹائی کے دوران آسمانی بجلی کا نشانہ بنے۔ تین کم عمر مزدور لیاقت پور کے علاقے میں ، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اسی طرح بہاولپور اورلودھران کے اضلاع میں بھی سات سے زیادہ اموات ہوئیں۔ بلوچستان میں چمن اور ڈیرہ بگٹی میں آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں پانچ اموات ہوئیں ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ چمن میں ایک گھر پر بجلی کرنے کے واقع کے نتیجے میں تین افراد اپنی جانوں سے گئے۔

اسی طرح راجنپور، بہالنگر اور مظفر گڑھ میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن سے قیمتی انسانی جانوں کےساتھ درجنوں مویشی بھی ہلاک ہوئے اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان میں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پانچ افراد آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے مارے گئے جب کہ زخمیوں کی بھی ایک تعداد ہے ۔ پنجاب میں ابھی تو مطلع صاف ہے مگر آئندہ چند دنوں میں بارشوں کے ایک سپیل کی پیش گوئی ہے ۔

بلوچستان میں ابھی بھی حالات خراب ہے کہ پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقوں میں چھوٹے ندی نالوں سے طغیانی آگئی ہے جس سے پنجگور، تربت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے علاقوں میں مکانات منہدم ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جانی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔

ابھی پچھلے ماہ مسلسل بارشوں کی وجہ سے گوادر زیر آب گیا تھا جس سے متعدد اموات ہوئیں اور کئی مکانات گرگئے ۔ خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں بھی حالات کافی خراب ہیں ، ضلع سوات ، دیر اور چترال میں سینکڑوں مکانات کرنے کے واقعات کی اطلاعات ہیں۔ اسی طرح لینڈ سلائڈنگ سے سڑکیں کئی مقامات پہ ختم ہوچکی ہیں۔

آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں فلیش فلڈنگ کا سامنا ہے ،دو سال قبل بھی پاکستان کو پچھلے کئی سالوں کے بعد سخت ترین حالات کا سامنا تھا جب سندھ ، بلوچستان ، پنجاب ، خیبر پختونخواہ کا بہت سا حصہ شدید بارشوں کی وجہ سے زیر آب آگیا تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سخت ترین مشکلات ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی پھیلائی آلودگی کے اثرات کا سامنا کررہاہے ۔ قرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے موسمیاتی تبدیلیاں اس قدر بے یقینی کا باعث بن رہی ہیں کہ زراعت کو بطور خاص بہت نقصان پہنچتا ہے۔

آسمانی بجلی کے گرنے کو بھی ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ جوڑ رہے ہیں ۔ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں بہت کم ہے مگر اس بار جس طرح سے آسمانی بجلی گرنے کے مہلک حادثات ہوئے ہیں انہوں نے ضرور انکی وجوہات اور ان سے بچاو تدابیر کے بارے میں سوچاہوگا۔

ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری کی گئی احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھیں اور طوفان کی صورت میں درختوں کے نیچے پناہ لینے سے گریز کریں ۔ اسی طرح پانی کی طرف یا ساحل کی طرف نہیں جانا چاہیے اور جس قدر ہوسکے کسی ایسی جگہ ہونا چاہیے جو نیچی ہو ۔

پاکستان میں سیاحت کے بہت سے مواقع ہیں لیکن سیاحت کے لیے ضروری ہے کہ پہلے موسمیاتی پیش گوئی کا مطالعہ کیا جائے اور پھر سیاحتی پروگرام بنایا جائے ۔ اس وقت صرف آزاد کشمیر میں پندرہ ہزار کے قریب سیاح بارشوں کی وجہ سے راستے بند ہونے پر پھنسے ہوئے اور دیر اور سوات کے حوالے سے بھی خبریں ایسی ہی آرہی ہیں ۔

Share With:
Rate This Article