Homecolumnوزیراعظم کا وہ سرکاری ناشتہ جو قوم کو ہضم نہ ہوا!

وزیراعظم کا وہ سرکاری ناشتہ جو قوم کو ہضم نہ ہوا!

وزیراعظم کا وہ سرکاری ناشتہ جو قوم کو ہضم نہ ہوا!

وزیراعظم کا وہ سرکاری ناشتہ جو قوم کو ہضم نہ ہوا!

تحریر:ڈاکٹر عاطف اشرف

جون دو ہزار اکیس کی بات ہے، فِن لینڈ کی وزیر اعظم  سنا مرین کے خلاف ایک خبر چھپی کہ وہ اور ان کی فیملی سرکاری خرچے سے ناشتہ کرتے ہیں۔عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کیا جانے والا  ناشتہ  فِن لینڈ کے عوام کو ہضم کیسے ہوتا؟  اس خبر کے بعد ایک طوفان آگیا، پولیس نے  تفیش شروع کردی ،قانون کھنگالا ،حتیٰ کہ  وزیر اعظم کو وضاحتیں دینا پڑگئیں۔اس ہلچل کا اتنا  اثر ہوا کہ آخر کار وزیر اعظم نے وہ کردیا جس کی توقع بھی نہ تھی۔

سینتیس سالہ سنا مرین  دنیا کی کم عمر ترین وزیر اعظم تھیں جو ستمبر دو ہزار تئیس تک عہدے پر رہیں،  دو ہزار انیس میں فِن لینڈ کی وزرت عظمیٰ کا عہدہ سنھالنے پراپنی کم عمری کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کامرکز بنیں لیکن مئی دو ہزار اکیس میں وہ ایک بار پھر خبروں میں آئیں اور اس کی وجہ ان کی عمر نہیں بلکہ ان کا ناشتہ تھا۔

ایک مقامی اخبار نے خبر دی کہ وزیر اعظم عوام ٹیکس کے پیسوں سے ناشتہ کرتی ہیں جو کہ غیر قانونی ہے۔ اخبار نے ان بلز کا حوالہ دیا جو ناشتے کی مد میں وزیر اعظم آفس کی طرف سے ری امبرس ہونے کے لئے گئے تھے۔یہ تقریبا  300یوروز کے بلز تھے جو ہر ماہ واپسی کے لئے قومی خزانے کو بھیجے جاتےتھے۔ سوال یہ نہیں تھا کہ وزیر اعظم نے ناشتے کا بل زیادہ بھیجا اور سینڈوچ کم کھائے بلکہ سوال یہ تھا کہ ایسے ترقی یافتہ ملک میں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ناشتہ کرنے کا سوال یہ ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ آپ بتائیں کہ کیا آپ کی طرف سے سرکاری خزانے سے ناشتہ کرنا قانونی تھا؟ جس پر سنا مرین نے جواب دیا کہ ان کو علم نہیں کہ یہ پریکٹس غیر قانونی ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی سرکاری خزانے سے ناشتہ جاتا تھا،یعنی یہ پریکٹس عام تھی۔

بات پولیس تک پہنچ گئی اور تفتیش شروع ہو گئی۔ وزیر اعظم ٹویٹر پر قوم کو وضاحتیں دینے پر اتر آئیں کہ انھوں نےوہی کیا جو پہلے سے چلتا آرہا تھا ، وہ بھی یہ جاننا چاہتی ہیں کہ فِن لینڈ کا قانون وزیر اعظم کو سرکاری پیسے سے کھانا کھانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ ایک وزیر اعظم ہونے کے ناتے نہ انھوں نےسرکاری ناشتہ کرنے کا فیصلہ کیا اور نہ ہی ان سے پوچھ یہ فائدہ دیا گیا۔پولیس نے تفتیش کی اور معلوم ہوا کہ قانون میں سرکاری خزانے سے ناشتہ کرنے کی واضح اجازت نہ تھی معاملہ ذرا مبہم تھا۔

یہاں ایک اور کمال ہوا، وزیر اعظم صاحبہ نے قانون کا سہارا لے کر خود کا دفاع کرنے کے بجائے خود قانون کو واضح کرنے کی ٹھانی اور بیان جاری کیا کہ قانون کو کھنگالا جائے اور یہ پتہ لگایا جائے کیا قانون  وزیر اعظم کے لیے فری ناشتے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ یہی نہیں انھوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری ناشتے کی مد میں جتنے بھی پیسے لیے تھے سب واپس کر دیے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ اگر قانون وزیر اعظم کو سرکاری ناشتے کا بجٹ فراہم بھی کرے تب بھی وہ عوام کے پیسوں سے ناشتہ نہیں کریں گے بلکہ اپنی جیب سے کریں گی۔

سنامرین نے چودہ ہزار یورو واپس کیے اور ساتھ ریاست کو یہ درخواست بھی کی کہ انہیں اس قانون سے متعلق گائیڈ کیا جائے ۔انھوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی برملا کہا کہ اگرقانون اجازت دے تب بھی وہ بریک فاسٹ الاونس نہیں لیں گی۔  اس کیس پر مہینوں بحث ہوتی رہی آخر کا فن لینڈ کے چانسلر آف جسٹس نے فیصلہ سنایا کہ وزیر اعظم کے لئے فری  سرکاری ناشتے  کی اجازت  کسی بھی طریقے سے قانونی نہیں ہے بلکہ یہ عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ناشتہ  وزیر اعظم ناشتہ تک نہیں کر سکتیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کیونکہ قانون مبہم تھا اور وزیر اعظم نے جان بوجھ کر مفت میں سرکاری ناشتہ نہیں کیا، اور وہ نادانی میں کئے گئے ناشتے کے یسے واپس بھی کر چکی ہیں، اس لئے اسے جرم نہیں کہا جا سکتا۔

فن لینڈ میں یہ ایشو بریک فاسٹ گیٹ کے نام سے مشہور ہوا، تقریبا ڈیڑھ سال تک قوم سے یہ ناشتہ ہضم نہ ہوا۔ یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے ملک بھی ہیں جہاں کے حکمران پورا ملک کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مارتے۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں نام بھی ہوتا ہےلیکن پھر بھی عوام اپنے حقوق کھانے بلکہ مارنے والے سے سوال تک نہیں کرتے۔

ناشتہ تو وہ حکمرانوں کو ویسے ہی اپنی جیب سے خود کروا دیں ایک عددسیلفی لےکر۔ ایسے ملکوں کے عوام اس ہاتھی کی طرح ہیں جسے پیدا ہوتے ہی زنجیر باندھ دیا گیا ہو اور وہ طاقت ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیر توڑنے کی کوشش بھی نہ کرتے ہوں ، ایسے ملکو ں کے عوام کو فن لینڈ کی عوام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وہ فِن لینڈ تھا، ایسے ملک شاید حکمران اشرافیہ کے لئے فَن لینڈ ہوتے ہیں، اور ان حکمرانوں کو عوام کے ساتھ انگریزی والا فَن کرنے کا اردو والا فَن خوب آتا ہے۔

Share With:
Rate This Article