Homecolumnغزہ کے گہرے زخم اور عالمی اداروں کی بے حسی

غزہ کے گہرے زخم اور عالمی اداروں کی بے حسی

غزہ کے گہرے زخم اور عالمی اداروں کی بے حسی

غزہ کے گہرے زخم اور عالمی اداروں کی بے حسی

تحریر:ڈاکٹر عاطف اشرف

جب سے اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی ہے، پندرہ لاکھ فلسطینی نقل مکانی کرکے رفع بارڈر پرپہنچ چکے ہیں۔ غزہ کا کل رقبہ اگر 365 مربع کلومیٹر ہے تو رفع بارڈر صرف 64 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ غزہ کی کل آبادی کا 70 فیصد غزہ کے کل رقبے کے 17 فیصد میں پناہ لے رہا ہے اور  یہی وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیل اپنے 30 ہزار فوجیوں کے ساتھ زمینی حملے کے لئے بالکل تیار بیٹھا ہے

غزہ میں اسرائیل کی سفاکیت اور درندگی کی داستانیں تو رقم ہو ہی رہی ہیں لیکن یہ ظلم دیکھنے والے “عالمی تماشائیوں” کی مجرمامہ  خاموشی کی بھی اپنی ہی کہانیاں ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں نے جہاں بے گناہ شہریوں، خواتین اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا، وہیں ان حملوں نے انسانی حقوق کا منجن بیچنے والی مغربی دکانوں کے بھرم کو بھی دھویں میں اڑا دیا ہے۔

غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملوں نے مغربی دنیا کی  تہذیب اور عالمی اداروں کے چہروں سے انسانیت کا نقاب نوچ دیا ہے اور جو اصلی چہرہ نظر آیا ہے وہ اتنا ہی بھیانک ہے جتنا غزہ میں تباہی کے مناظر۔اقوام متحدہ نے غزہ میں تباہی کی ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق  اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں صرف تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہٹانے میں تقریباً 14 سال لگ سکتے ہیں۔اسرائیل نے اب تک غزہ پر 75 ہزار ٹن بارود برسا چکا ہے جس میں 3 لاکھ 80 ہزار سے زائد رہائشی یونٹ اور 412 تعلیمی ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔

آپ اندازہ کریں کہ تباہی کے یہ اعدادوشمار اس عالمی ادارے (اقوام متحدہ) نے دیے ہیں جس کا اپنا اصلی کام جنگیں روکناہے لیکن اسرائیل کو روکنے کے بجائے اقوام متحدہ ایک خاموش تماشائی کی طرح نقصان کا ڈیٹا جاری کررہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی  ہے کہ چند مسلح غنڈے کسی گاؤں میں گھس جائیں اور اندھا دھندفائرنگ کرکے معصوم اور نہتے لوگوں، خواتین  اور بچوں کو قتل کرنا شروع کردیں، ان کے مکانوں کو آگ لگاتے رہیں اور خواتین کا ریپ کرتے رہیں اور یہ ساری کارروائی گاؤں کا چودھری تماشائی بن کر دیکھتا رہے،زخمیوں کی مرہم پٹی بھی  کرواتا رہے، بھوکوں کو کھانا بھی دیتا رہے، تباہ ہونے والے مکان بھی گنتا رہے  لیکن طاقت ہونے کے باوجود مسلح غنڈوں کا ہاتھ نہ روکے!

یہ اسرائیل کا ہاتھ نہ روکنے کی ہی وجہ ہے کہ غزہ میں اب تک 34000 سے زائد جانیں جا چکی ہیں جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیل کے سر پر درندگی سوار ہے لیکن امریکہ ڈنکے کی چوٹ پر اسرائیل کو کی دفاعی اور مالی مدد کررہا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ ملبے کو صاف کرنے کے لئے درکار وقت کا ڈیٹا اکھٹا کررہاہے۔ عام طور پر ایسا ڈیٹا تو قدری آفات کی صورت میں اکھٹا کیا جاتا ہے، کہیں کوئی سیلاب، سونامی ، زلزلہ یا وبا پھوٹ پڑے تو نقصان کا تعین ہوتا ہے لیکن غزہ کی تباہی تو “اسرائیلی میڈ”ہے یہ تو ہاتھ سے روکی بھی جا سکتی ہے لیکن رک نہیں رہی، یا دانستہ روکنے کی کوشش ہی نہیں کی جا رہی۔ غزہ کے ملبے کو صاف کرنا اتنا اہم نہیں، وہ فلسطینی خود بھی کر سکتے ہیں،

دنیا کو بہادری سکھانے والی فلسطینی وہ قوم  ہے جو 1948 سے صرف مزاحمت ہی تو کر رہی ہے اور ابھی تک ختم نہیں ہو سکی، ملبہ تو ختم ہو ہی جاتے گا لیکن اس ملبے سے لکھی جانے والی دنیا کی بے حسی کی تاریخ کبھی نہیں مٹے گی۔یہ کھنڈر بتائیں گے کہ غزہ میں اقوام متحدہ جیسے ادارے لاشیں تو گنتے رہے لیکن ظالم کا ہاتھ نہ پکڑ سکے۔مسلمان ملکوں کے حکمران بیان تو دیتے رہے لیکن عملی طور پر مفلوج رہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مغربی اقدار اور عالمی اداروں کے انسان حقوق کے تحفظ کی  ساری کی ساری ساکھ غزہ کے  اسی ملبے میں راکھ ہوچکی ہے۔ ملبہ تو چودہ سال میں صاف ہو جائے گا لیکن عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی کبھی ذہنوں سے صاف نہیں ہوگی۔

  بات صرف اسرائیل کے جرائم اور ملبے کی حد تک محدود نہیں، اسرائیل کی سفاکیت فائنل راؤنڈ کھیلنے کو تیار بیٹھی ہے۔ بات اب اس خطرے تک پہنچ چکی ہے جو انسانی المیے کو مزید سنگین بنا دے گا اگر اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہے تو ان دو اہم ترین نقطوں پر دھیان دے: پہلا غزہ میں قحط اوردوسرا رفع بارڈر پر اسرائیل کے زمینی حملے کی تیاری!

غزہ کا ملبہ ہٹانے میں بیشک چودہ سال لگیں گے لیکن غزہ میں محصور پونے چھ لاکھ فلسطینیوں کے لئے خوراک کے بغیر چودہ دن گزارنے بھی مشکل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی بائیس لاکھ کی آبادی میں سے پونے چھ لاکھ فسطینیوں کو شدید قحط کا خطرہ ہے اور اگر ان تک خوراک نہ پہنچی تو لاکھوں لوگ بھوک سے مر سکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر اسرائیل غزہ کے لئے بین الاقوامی مدد کو روک لیتاہے تو پھرفلسطنیوں کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار قحط ہو گا اور بغیرکوئی گولی چلائے اسرئیل لاکھوں فلسطینیوں کو بھوکا مار دے گا۔ کیا اقوام متحدہ اگلے چودہ ہفتوں میں اسرائیل کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ قحط کو بطور ہتھیار استعمال نہ کرے؟ چودہ سال میں ملبہ تو صاف ہو ہی جائے گا کیا فلسطنیوں کی زندگیاں بچانے میں ایسے عالمی اداروں کی نیت صاف ہے؟

اب ملاحظہ فرمائیں رفع بارڈر پر اسرائیل کے حملے کی تیاری اور اس کے ممکنہ نتائج۔ رفع بارڈر غزہ کی وہ واحد سرحد ہے جو مصر کے ساتھ ملتی ہے۔ جب سے اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی ہے، 15 لاکھ فلسطینی نقل مکانی کرکے غزہ پہنچ چکے ہیں۔ غزہ کا کل رقبہ اگر 365 مربع کلومیٹر ہے تو رفع بارڈر صرف 64 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ غزہ کی کل آبادی کا 70 فیصد غزہ کے کل رقبے کے 17 فیصد میں پناہ لے رہا ہے۔ اور  یہی وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیل اپنے 30 ہزار فوجیوں کے ساتھ زمینی حملے کے لئے بالکل تیار بیٹھا ہے۔ یہ علاقہ جتنا گنجان آباد ہے اگر ایک گولی بھی چلتی ہے تو وہ ٹارگٹ مس ہونے کے باوجود کسی راہگیر بزرگ، عورت یا بچے کو لگ سکتی ہے اور کولیکٹرل ڈیمج کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ حملے کی صورت میں نقل مکانی کرنے والوں کا ایک طوفان آئے گا اور انسانی المیہ اتنا شدید ہو گا کہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے مصر رفع بارڈرپہلے ہی بند کر چکا ہے لیکن جنگ بندی کے لئے قطر کے ساتھ مل کر ثالثی کا کرداربھی ادا کررہا ہے۔ یہ کوششیں کی  جا رہی ہیں کہ اسرائیل اپنے قیدیوں کے بدلے سیز فائر کردے گا اور جنگ بندی پر عمل ہو جائے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے امریکی اور اسرائیلی حکام کا موقف جاننا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پہلے اسرائیل کے ایکشن اور بیانات ملاحظہ فرمائیں۔ اسرائیلی ملٹری کے چیف آف سٹاف ہرزی ہلاوی اس جنگ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انھوں نے رفع بارڈر کے لئے فوج کشی کرنے والے ملٹری کے ہیڈ سے ایک ملاقات کی ہے۔

اس ملاقات میں تمام متعلقہ فوجی افسران  شریک تھے۔ ملاقات کے بعد اسرائیلی آرمی چیف نے جنگ جاری رکھنے یعنی  رفع پر زمینی حملے کی منظوری دے دی ہے اور  اب اسرائیلی فوج وزیر اعظم نتن یاہو کے گرین سگنل کا انتظار کر رہی ہے ۔ دوسری طرف نتن یاہو پر اپنی پارٹی کی طرف سے بھی زمینی حملہ کرنے پر کافی دباؤ ہے۔ اسرائیل کے وزیر خزانہ بھی ایک ویڈیو بیان میں کہہ چکے ہیں کہ “اگر رفع پر چڑھائی نہ کی گئی تو نتن یاہو حکومت کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں! یہ حماس کے خلاف اسرائیل کی شکست ہوگی”۔

ان بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل توحملے کو تیار ہے لیکن کیا امریکہ اس کی اجازت دے گا؟ اس صورتحال میں تمام نظریں امریکہ کو دیکھ رہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کو رفع پر زمینی حملے سے صرف امریکا ہی روک سکتا ہےلیکن کیا امریکہ بھی یہی چاہتا ہے کہ رفع پر حملہ کیا جائے؟ بظاہر تو امریکہ اس حملے کے خلاف ہے لیکن وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کے بیان سے امن کے بجائے جنگ کی بو آرہی ہے۔اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ حملے سے پہلے امریکی تحفظات دور کریں گا۔ لیکن امریکہ کے تحفظات میں حماس کا کوئی ذکر نہیں۔ جان کربی کہتے ہیں کہ اسرائیل سے کہا ہے کہ زمینی حملے سے پہلے فلسطینی سویلینز کا تحفظ یقینی بنایا جائے، اوراسرائیل  اس پر امریکہ کو مطمئن کرے کہ کولیکٹرل ڈیمج نہیں ہوگا۔

جان کربی کے اس بیان کو پڑھ کر آپ نے خود اندازہ لگا لیا ہوگا کہ ایک چھوٹے سے علاقے میں  پندرہ لاکھ کی تعداد میں پناہ لینے والے فلسطینیوں پرٹارگٹڈ حملے کے دوران یہ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ سویلینز نشانہ نہیں بنیں گے؟ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ حماس کو ٹارگٹ کرنے کے چکرمیں اسرائیل نے دو سو دنوں میں 34000 نہتے فلسطینی شہید کردیے۔امریکہ اس کولیٹرل ڈیمج پر نہیں بولا تو رفع میں جہاں غزہ کی کل آبادی کا 70فیصد موجود ہے، کیسے کولیٹرل ڈیمج سے بچا جا سکتا ہے؟ یہ صورتحال امریکہ کے دوغلے پن اور اسرائیل کی ڈھٹائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔امریکہ تو اسرائیل کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہے لیکن اقوام متحدہ کہاں کھڑی ہے؟ یہ نہ تو امریکہ پر دباؤ ڈال سکتی ہے اور نہ ہی اسرائیل کو لگام، یہ صرف تباہ شدہ عمارتیں اور لاشیں گنتی رہے گی یا ملبہ صاف کرنے کی رپورٹ دیتی رہے گی، امریکہ اور اسرائیل کی طبیعت صاف کرنے کی جرات ہی نہیں کیونکہ امریکہ اسے فنڈ بھی کرتا ہے اور سپر پاور تو ہے ہی۔

ٹی وی سیریز گیم آف تھرونز کا مشہور ڈائیلاگ ہے، پاور از پاور۔یعنی قانون اور آئین یا اخلاقیات طاقت کے آگے کیا بیچتے ہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس !ویسے اگر قانون کی بات کریں تو بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی ملک پر حملے کی صورت میں دفاع میں لڑنا اس قوم کا حق ہوتا ہے، اگر حماس یہ حق استعمال کرتی ہے تو مغربی دنیا اسے دہشت گرد کہتی ہے لیکن اگر یہی حق روس کے خلاف یوکرین کے شہری استعمال کریں  تو ان پر فریڈم فائیٹر اور ہیروز کا لیبل لگتا ہے۔  امریکہ اور مغربی دنیا اور عالمی اداروں کی اسی دوغلی پالیسی سے ثابت ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کچھ نہیں ہوتے، جس کے پاس طاقت ہے لاٹھی بھی اسی کی چلتی ہے ۔

امریکہ اور مغربی طاقتیں تو اسی اصول پر کاربند ہیں اور تیسری دنیا کے ملکوں کو قانون اورآئین اور انسانی حقوق کا پہاڑہ پڑھا رہی ہیں ۔ اگر اسی اصول کو مد نظر رکھیں تو امن لانے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ جیسے روس نے یوکرین پر طاقت کا استعمال کیا، امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر جنگ عظیم ختم کی پھر “امن “آیا ، نائن الیون کے بعد طاقت کے استعمال سے افغانستان اور عراق کو کھنڈر بنایا پھر “امن “آیا ، شام کا نقشہ بگاڑ دیا پھر “امن”آیا؟ اسرائیل بھی امن کے لئے حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے لیکن امن کی بات کرنے والی اقوام متحدہ کی طاقت تو صرف ملبے کا تخمینہ لگانے تک محدود ہے۔ کیا کسی اور میں اتنی طاقت ہے کہ وہ غزہ کے مظلوموں کا ساتھ دے کر ظالم کا ہاتھ پکڑ سکے؟ اسرائیل کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے اسے اسی زبان میں سمجھائے جو وہ سمجھتا ہے؟ اگر امن کا یہی فارمولا ہے تو پھر اسرائیل کے خلاف طاقت کا استعمال بھی ناگزیر ہے، کیا کسی میں ہے وہ طاقت؟

Share With:
Rate This Article
Tags