HomeGazaغزہ جنگ : ترکی نے اسرائیل کیساتھ تجارت روک دی

غزہ جنگ : ترکی نے اسرائیل کیساتھ تجارت روک دی

Israel and Turkey

غزہ جنگ : ترکی نے اسرائیل کیساتھ تجارت روک دی

انقرہ:(ویب ڈیسک) ترکی نے غزہ پر جاری جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی لین دین معطل کر دیا ہے۔

ترکی کی وزارت تجارت نے کہا کہ یہ اقدامات اس وقت تک نافذ العمل رہیں گے جب تک کہ اسرائیل غزہ تک امداد کو “مناسب اور بلاتعطل” طریقے سے پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا۔

ایک اندازے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم گذشتہ سال 7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان پر ایک “آمر” جیسا سلوک کرنے کا الزام لگایا ہے۔

کاٹز نے ایکس پر کہا کہ اردگان “ترک عوام ، تاجروں اور بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھاکہ ہم نے وزارت خارجہ کو مقامی پیداوار اور دیگر ممالک سے درآمدات پر توجہ دے کر ترکی کے ساتھ تجارت کے متبادل تلاش کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔

جبکہ ترکی نے کہا ہے کہ : “ہم ان نئے اقدامات پر سختی اور مضبوطی سے عمل درآمد کرے گا، جب تک کہ اسرائیلی حکومت امداد کو مناسب اور بلاتعطل طریقے سے غزہ تک پہنچنے کی اجازت نہ دے”۔

1949 ءمیں، ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔

2010 ءمیں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے، جب فلسطین کی حمایت کرنے والے 10 ترک کارکنوں کو اسرائیلی فوج کے دستے نے اس وقت دھاوا بول دیا تھا، جب وہ غزہ پر مسلط اسرائیلی بحری ناکہ بندی کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھا۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 2016 ءمیں اپنی سابقہ ​​حالت میں واپس آ گئے تھے، لیکن ان میں سے ہر ایک نے دوسرے ملک کے سفیر کو ملک بدر کر دیا تھا۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ کی پٹی پر اپنی حالیہ فوجی مہم کے بعد اردگان کی اسرائیل پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔

اردگان نے جنوری میں کہا تھا کہ حملے کے جواب میں وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے شروع کی گئی فوجی مہم “ہٹلر ” سے کم نہیں تھی۔

نیتن یاہو نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا، “اردگان، جو کردوں کے خلاف نسل کشی کر رہےہیں، اور ان کے پاس ان کی حکمرانی کی مخالفت کرنے والے صحافیوں کو قید کرنے کا ریکارڈ ہے، وہ آخری شخص ہیںجن کو ہمیں اخلاقی خطبہ دینے کا حق حاصل ہے۔”

اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے حالات کے حوالے سے بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ رپورٹوں میں گذشتہ ماہ انکشاف کیا گیا تھا کہ غزہ میں 1.1 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں اور مئی میں شمالی پٹی میں قحط پڑ جائے گا۔

اس ہفتے کے آغاز میں، اسرائیل نے اپنے مغربی اتحادیوں کے دباؤ کے بعد، اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے بار بار مطالبات کی وجہ سے، شمالی غزہ کے لیے، امدادی قافلوں کے داخلے کے لیے ایریز کراسنگ کھول دی تھی۔

لیکن ترک صدرطیب اردگان نے کہا کہ کراسنگ پر پہنچنے سے پہلے اس کے کچھ ٹرکوں پر اسرائیلی آباد کاروں نے حملہ کیا۔

اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک رپورٹ نے حال ہی میں اعدادوشمار کا انکشاف کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں انسانی تباہی انسانوں کے بنائے ہوئے قحط کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یقین کرنے کی وجہ‘ ہے کہ اسرائیل بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

لیکن اسرائیل اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی رسائی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کو غزہ کے اندر ضرورت مندوں میں امداد تقسیم کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

Share With:
Rate This Article