Homecolumnپاکستان کی چوتھی مرکزی کابینہ

پاکستان کی چوتھی مرکزی کابینہ

پاکستان کی چوتھی مرکزی کابینہ

پاکستان کی چوتھی مرکزی کابینہ

چوہدر محمد علی کابینہ اور پاکستان کا پہلا آئین

تحریر:رضا کھرل

11 اگست 1955تا 12 ستمبر 1956

چوہدری محمدعلی کے حوالے سے پہلے کی کابینہ میں تذکرہ ہوچکا ہے ۔ ان کی وزارت کا دورانیہ 13 کے لگ بھگ تھا۔ ان کا کردار پاکستان کے بننے کے شروع کے سالوں میں کافی اہم رہاہے۔ بنیادی طور پر چوہدری محمد علی سائنس کے طالب علم تھے ۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کرنے کے بعد انڈین سول سروس جوائن کرلی تھی۔ چوہدری محمد علی کی سربراہی میں ہی پاکستان کا پہلا دستور بنا اور نافذ ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیاں طاقت کے توازن کے لیے محمدعلی فارمولہ نافذ کرایا ۔

ڈاکٹر خانصاحب ( خان عبدالجبار خان)

11 اگست 1955 تا14اکتوبر 1955

وزیر برائے مواصلات، ریاستیں اور سرحدی امور

یہ ڈاکٹر خانصاحب کی دوسری کابینہ میں شمولیت تھی۔ خان صاحب اس سے پہلے محمد علی بوگرہ حکومت میں بھی وزیر رہ چکے تھے ۔ جس کی تفصیل آگے ہوگی۔ چوہدری محمد علی کی وزارت میں ڈاکٹر خانصا حب چند ماہ ہی کابینہ میں رہے ۔ ون یونٹ کی سکیم جب 30 ستمبر 1955 کو پاس ہوئی تو ڈاکٹر خانصاحب کو اس سکیم کے تحت مغربی پاکستان کا پہلا وزیر اعلیٰ بنا گیا۔ مارچ 1957 تک وہ وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان رہے یہاں تک کہ انہوں نے استعفیٰ دینا پڑا۔

28 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

وزیر برائے مواصلات

خان برادارن سے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تھوڑا بہت بھی تعلق رکھنے والا جانتا ہے۔ خان عبدالغفار اور خان عبدالجبار ۔شروع سے ہی کانگریس پارٹی کےرکن تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستانی سیاست میں متحرک ہوئے۔ سیاسی جماعتیں بھی بنائیں اور وزاتوں میں بھی شامل ہوئے ۔ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں وزیر مواصلات رہے ۔ بعد میں مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ ڈاکٹر خاں صاحب کی زیادہ تر سیاست اپنے بھائی خان عبدالغفار عرف باچا خان کے ساتھ تھی لیکن جب ڈاکٹر خانصاحب نے سکندر مرزا کےساتھ مل کر ریپبلکن پارٹی بنائی تو دونوں بھائی علٰیحدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر خان صاحب کو 1958 میں لاہور میں قتل کردیاگیا۔

اے کے فضل الحق

11 اگست 1955 تا 9 مارچ1956

وزیر براے داخلہ امور (17 اکتوبر 1955 تا 9 مارچ 1956) تعلیم

شیر بنگلہ کے نام سے مشہور اے کے فضل الحق کا اصل نام ابوالقاسم فضل الحق ہے۔ وہ متحدہ بنگال میں1873 میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری میں ہی تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ 1924 کو وہ بنگال کے وزیر تعلیم بنے اور 1935 میں کلکتہ کے میر۔1937 سے 1943 تک وہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مشرقی بنگال کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔ وہ نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے بلکہ انڈین نیشنل کانگریس کے سیکریٹری جنرل ہونے کا بھی ہونے اعزاز حاصل ہے۔ ان عہدوں پر وہ بیک وقت بھی متمکن رہے۔ انہیں زیادہ تر آل انڈیا مسلم لیگ کے 1940 کے لاہور اجلاس میں مسلمانوں کے لیے علٰیحدہ مملکت کے لیے قرارداد پیش کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ یہ قرار داد ہی قرارداد پاکستان کہلائی اور پاکستان کا قیام اسی قرارداد کے تحت ہوا ۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جواہر لال نہرو نے اے کے فضل الحق کےپولیٹیکل سیکریٹری کے طور پر بھی کسی دور میں کام کیا تھا۔ فضل الحق بنگالی زبان کے بہت حامی تھے ۔ انہوں نے بنگالی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لیے تحریک بھی چلائی اور اس پاداش میں انہیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی ۔ چوہدری محمد علی کی سبکدوشی کے بعد فضل الحق کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا ۔ وہ اس عہدے پر تقریباً دو سال مقیم رہے یہاں تک کہ 7 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا نے مارشل نافذ کرکے تمام سیاسی عہدے ختم کردیے اور آئین 1956 کو ختم کردیا۔

حبیب ابراہیم رحمت اللہ

11 اگست 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر برائے تجارت

26 نومبر 1954 تا 11 اگست 1955

وزیر برائے تجارت

حبیب رحمت اللہ کا تعلق ممبئی سے تھا ۔ وہاں ان کے والد اور چچا ممبئی کے میر رہ چکے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان آئے تو انہوں نے سفارتکاری میں اپنا لومنوایا اور کئی سفارتی خدمات سرانجام دیں ۔ انہیں پہلے گورنر سندھ اور بعد مختصر عرصے کے لیے گورنر پنجاب بھی مقرر کیا گیا۔ بعد میں وہ پاکستان کے وزیر تجارت رہے ۔ عالمی سطح پر کافی متحرک تھے اور اسی بنا پر تجارتی محاذوں پر بھی کافی پذیرائی ملی۔ وہ 1991 کو کراچی میں فوت ہوئے ۔ ان کے نام پر ایک سڑک کراچی میں واقع ہے۔

سید عابد حسین

18 دسمبر 1954 تا 11 اگست 1955

11 اگست 1955 تا 14 اکتوبر 1955

وزیر برائے امور کشمیر و تعلیم

وزیر برائے خوراک و تعلیم

کرنل عابد حسین کا تعلق جھنگ کے سید گھرانے سے تھا۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی عملی سیاست میں حصہ لے رہے تھے۔ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں وہ پہلی دفعہ وزیر بنے ۔ اس کے بعد ملک فیروزخان کی کابینہ میں شامل تھے۔ ان کی صاحبزادی سیدہ عابدہ حسین متعدد مرتبہ ممبر پارلیمنٹ بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہی ہیں۔ اب سید عابد حسین کا دوہتا اور دوہتی عملی سیاست میں ہیں۔

کامنی کمار دتہ

11 اگست 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر برائے قانون( 11 اگست 1955 تا 31 اگست 1955) و صحت

کامنی کمار دتہ 1878 کو بنگال کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ کلکتہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور کومیلا کے بار ممبر بنے ۔ 1937 میں بنگال کی مجلس قانون ساز کے ممبر بنے ۔ چوہدری محمد علی کی کابینہ میں وزیر قانون رہے۔ انہوں نے اپنے آبائی گھر کو بے سہارا خواتین کے لیے ہوسٹل میں بدل دیا تھا۔ ڈھاکہ ٹرائبیون کی ایک تحریر کے مطابق ، ان کے مرنے کے بعد ان کی تمام جائداد ایک ٹرسٹ میں دے دی گئی۔

پیر علی محمد راشدی

11 اگست 1955 تا 29 اگست 1956

وزیر برائے اطلاعات و تشریات

علی محمد راسشدی کا تعلق رتو ڈیرو لاڑکانہ سے تھا ۔ وہ 1905 کو پیدا ہوئے۔ زیادہ تر تعلیم خود سے ہی حاصل کی ۔ بطور صحافی اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس دوران سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ یہاں تک کہ 1927 میں سندھ کے اہم سیاستدان ایوب کھوڑو کے سیکریٹری بن گئے۔ اسی دوران اور بھی بہت سی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ سر شاہنواز بھٹو کی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی سے بھی وابستہ رہے۔ کہا جاتا ہے کہ علی راشدی قرار داد لاہور جو بعد میں قرار داد پاکستان کہلائی کیا تیاری میں بھی شامل رہے۔ سندھ اسمبلی کے ممبر بنے اور وزیر بھی ۔ بعد میں چوہدری محمد علی کی کابینہ میں وزیر اطلاعات رہے ۔ کچھ عرصے کے لیے فلپائن میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔

ایم ڈی نور الحق چوہدری

11 اگست 1955 تا 12 ستمبر1956

وزیر برائے محنت، منصوبہ جات اور اقلیتی امور

ان کے بارے میں معلومات میسر نہیں۔

عبدالطیف بسواس

11 اگست 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر برائے خورات و زراعت

ان کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا ۔ یہ دوسری قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور چوہدری محمد علی کی وزارت میں خوراک اور زراعت کے محکموں کے وزیر تھے۔

ابراہیم اسماعیل چندریگر

31 اگست 1955 تا 29 اگست 1956

وزیر برائے قانون

ابراہیم اسماعیل چندریگر احمد آباد میں 1897 میں پیدا ہوا۔ ممبئی سے قانون کی ڈگری لی اور پھر وہیں پریکٹس شروع کردی۔ بعد میں احمد آباد منتقل ہوگئے۔ 1934 میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1937 میں ممبئی اسمبلی کے رکن چنے گئے۔ اگلے سال ممبئی اسمبلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ڈپٹی لیڈر منتخب ہوئے۔1940 سے 1945 تک ممبئی مسلم لیگ کے صدر رہے۔ 1947 میں جب مسلم لیگ ہندوستان کی عارضی حکومت میں شامل ہوئی تو انہیں تجارت کا قلمدان سونپا گیا۔ انہیں نے اسی دوران مخلتف فورم پا ہندوستان کی نمائندگی بھی کی۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی کابینہ میں مختصر عرصے کے لیے تجارت کا قلمدان ان کے پاس رہا ۔ دوسری مرتبہ چودھری محمد علی کی وزارت میں ، انہیں قانون کا قلمدان ملا ۔ بعد میں قلیل عرصے کے لیے یہ وزیر اعظم بھی رہے۔

حمید الحق چوہدری

26 ستمبر 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر برائے خارجہ و دولت مشترکہ

سید امجد علی

17 اکتوبر 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر برائے خزانہ و معاشی امور

سید امجد علی ، معروف سماجی رہنما و صنعتکار سید بابر علی کے بڑے بھائی تھے۔1907 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں ہی حاصل کی ۔ لکھنو سے بھی فیض علم حاصل کیا اسکے بعد لندن سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ لندن میں قیام کے دوران گول میز کانفرنس کے لیے آنے والے مندوبین کے لیے سیکریٹری کے طور پر بھی کام کیا ۔ اس کے علاوہ سید امجد علی نے سکندر حیات اور سر فضل حسین کے ساتھ پنجاب میں بھی کام کیا تھا۔ چوہدری محمدعلی کی حکومت میں وزیر خزانہ بھی رہے۔ 1953 سے 1955 تک یہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے ۔ 1964 سے 67 تک سید امجد علی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مقرر ہوئے۔

ایم آر کیانی

17 اکتوبر 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر برائے مواصلات

ان کے بارے میں بھی معلومات نہیں۔ یہ جسٹس ایم آر کیا نی ہیں یا محمد رحمان کیانی جو ایوب دور میں وزیر رہے ؟

عبدالستار

17 مارچ 1956 تا 121 ستمبر 1956

وزیر برائے داخلہ و تعلیم

بنگلہ دیش کے سابق صدر اور پاکستان میں چوہدری محمد علی کی کابینہ کے وزیر داخلہ ، عبدالستار کا تعلق بنگال سے تھا ۔ وہ 1906 میں پیدا ہوئے ۔ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ مولوی اے کے فضل الحق کے چیمبر میں چلے گئے۔ جب مولوی فضل الحق بنگال کے وزیر اعظم بنے تو یہ ان کے دست راست تھے۔ پاکستان بننے کے بعد عبدالستار ڈھاکہ چلے گئے۔ وہ پاکستان کی مجلس دستور ساز کے ممبر بھی رہے۔ چوہدری محمد علی کی کابینہ کا حصہ بھی رہے اور بعد آئی آئی چندریگر کی کابینہ میں شامل رہے۔ ڈھاکہ ہائی کورٹ کے رکن بھی بنے ۔ 1969 میں پاکستان کے الیکشن کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے۔

وزرائے مملکت

سردار امیر اعظم خان

11 اگست 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر مملکت برائے مہاجرین، آبادکاری و پارلیمانی امور

سردار امیر اعظم خان اس سے پہلے بھی وزارتوں کا حصہ رہ چکے تھے ۔ لیاقت علی خان کے ساتھ گہرا تعلق اور پھر بعد کےادوار میں بھی وہ وزیر مملکت رہے۔ ویسے تو تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا مگر کئی نسلوں سے اتر پردیشن میں مقیم تھے ۔ قیام پاکستان کےبعد راولپنڈی میں رہائش اختیار کیا ۔ اکتوبر 1951 کو جب لیاقت علی خان کی راولپنڈی میں شہادت ہوئی تو یہ عینی شاہد تھے۔

لطف الرحمان خان

11 اگست 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر مملکت برائے خزانہ

ان کا تعلق بھی بنگال سے تھا ۔ مزید معلومات نہیں۔

اکشے کمار داس

26 ستمبر 1955 تا 12 ستمبر 1956

وزیر مملکت برائے معاشی امور

اکشے کمار داس کا تعلق بنگال کے دلت قبیلے سے تھا ۔ وہ بنگال کی تقسیم کے سخت مخالف تھے لیکن جن 1947 میں بنگال دو حصوں میں بٹ گیا تو انہوں نے پاکستان یعنی مشرقی بنگال سکونت اختیار کی اور مختلف سیاسی پلیٹ فارموں پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ پاکستان کی مجلس دستور ساز کے ممبر بھی رہے۔ اور چوہدری محمد علی نے انہیں وزیر مملکت برائے معاشی امور بنایا ۔ اسکےبعد وہ آئی آئی چنردیگر اور ملک فیروزخان نون کی وزارتوں میں بھی شامل رہے۔

Share With:
Rate This Article