Homecolumnپاکستان کی تیسری کابینہ

پاکستان کی تیسری کابینہ

پاکستان کی تیسری کابینہ

پاکستان کی تیسری کابینہ

تحریر :رضا کھرل

محمد علی بوگرہ حکومت

17 اپریل 1953 تا 24 اکتوبر 1954

اور

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

چویس اکتوبر1954 کو دستور ساز اسمبلی کی تحلیل سے پہلے گورنرجنرل غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو

وزیر اعظم بنیا گیا اور ساتھ ہی کابینہ بھی ۔ ان میں پچھلی کابینہ کے بھی پانچ ممبران شامل تھے۔ جن کے نام چوہدری محمد علی ، ڈاکر اے ایم ملک ۔ غیاث الدین پٹھان، اس کے علاوہ سردار امیر اعظم خان اور مرتضیٰ رضا چوہدری بھی تھے۔ نئے ممبران میں ایم اے اصفہانی، ڈاکٹر خان صاحب ، میجر جنرل سکندر مرزا اور کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان بھی تھے۔

بعد میں پانچ اور وزیر بنائے گئے اور ان کے نام یہ تھے حبیب ابراہیم رحمت اللہ ، سید عابد حسین ، سردار ممتاز علی ، حسین شہید سہروردی اور حسین سرکار۔ محمد علی بوگرہ نے اسے کیبنٹ آف ٹیلنٹس یعنی کئی گنوں والی کابینہ کا نام دیا ۔ اصل میں یہ کابینہ پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت کی ابتدا تھی۔ اس میں بوگرہ کی حیثیت ایک ایسے سربراہ حکومت کی تھی جس کے اختیار میں کچھ نہ تھا۔

کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو وزارت دفاع کا انچارج بنایا گیا جبکہ سکندر مرزا کو وزیر داخلہ ۔ کابینہ نے ون یونٹ پلان کے ذریعے صوبوں اور دیسی ریاستوں کو ایک صوبے میں مدغم کردیا۔ نواب مشتاق احمد گرمانی نے بطور گورنرپنجاب صوبوں پنجاب کے ممبران صوبائی اسمبلی کو ون یونٹ پر رضا مند کیا ۔ صوبہ سرحد نے بھی ماسوائے پیر مانکی اور پانچ ممبران کے ۔ اسے قبول کرلیا۔

سندھ اسمبلی نے عبدالستارپیرزادہ کی سربراہی میں اس منصوبے کو رد کردیا تو مرکز نے عبدالستار پیر زادہ کی جگہ ایوب کھوڑو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جس نے ایک مہینے کے اندر اندر سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں منظوری لے لی۔ ریاست خیرپور، بہاولپور اس پر راضی ہوگئے جب کہ خان آف قلات کو مجبور کرکے ون یونٹ پر رضا مند کیا گیا۔

آئیے اس کابینہ کے ممبران کے بارے میں جانتے ہیں۔

وزیر اعظم محمد علی بوگرہ 17اپریل 1953 سے لے کر 24 اکتوبر 1954 ہے ۔

اصل میں گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر میں جب محمد علی بوگرہ سرکاری دورے پر امریکہ میں تھے تو گورنر جنرل غلام محمد نے انتہائی غصے کےعالم میں ، محمد علی بوگرہ کی حکومت ختم کردی ، وہ امریکہ سے واپس لوٹے تو گورنر جنرل نے انہیں بحال تو کردیا لیکن ساتھ ہی انہیں اپنی کابینہ کی تشکیل نو کا بھی حکم دیا ۔

محمدعلی بوگرہ 1909 میں بنگال میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم یونی ورسٹی آف کلکتہ سے حاصل کی۔ سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ سے کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے بنگال میں حسین شہید سہروردی کی وزرات اعلیٰ ( وزیر اعظم) میں وزیر رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سفارتکاری میں چلے گئے ، یہاں تک کہ 1953 میں جب گورنرجنرل غلام محمد نے انہیں وزیر اعظم کے لیے نامزد کیا تو وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور جب وہ وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوئے تو بھی امریکہ میں بطور سفیر چنے گئے۔

آئینے کابینہ کے پہلے حصے کا جائزہ لیتے ہیں۔

1:چوہدری محمد علی وزیر خزانہ

24 اکتوبر 1951 تا 17 اپریل 1953

چوہدری محمد علی ، چالندھر سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے لاہور سے سائنس میں تعلیم حاصل کی اور ایم ایس سی کیمسٹری کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں انہوں نے انڈین سول سروس جوائن کرلی ۔ 1936 میں وہ اس وقت کے وزیر خزانہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1946-47 میں وہ ہندوستان کے سیکریٹری خزانہ بنے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ وزیر خزانہ غلام محمد کی وزارت کے دور میں سیکرٹری خزانہ تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت میں انہیں وزیر خزانہ بنایاگیا ۔بعد میں چوہدی محمد علی پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے۔ اور انہی کے دور میں پاکستان کا پہلا آئین جسے 1956 کا آئین کہتے ہیں لاگو ہوا۔

2:مشتاق احمد گرمانی وزیر داخلہ ، امور کشمیر، ریاستیں اور سرحدی امور

24 اکتوبر 1951 تا 17 اپریل 1953

ان کا تعلیم کوٹ ادو کے قریب ایک گاوں ٹھٹہ گرمانی سے تھا۔ نواب مشتاق احمد خان گرمانی ، قیام پاکستان سے پہلے ریاست بہاولپور کے دیوان تھے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کی وزارت میں انہیں پہلے بغیر محکمے کے وزیر بنایاگیا اور بعد میں امور کشمیر کا چارج ملا ۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت میں بھی خواجہ شہاب الدین کے سرحد کے گورنر بننے کے بعد نواب مشتاق احمد گرمانی کو وزیر داخلہ کا بھی چارج دے دیا گیا۔ نواب گرمانی بعد میں بھی مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔

1954 سے 1957 تک وہ گورنر پنجاب رہے۔ جب مغربی پاکستان ون یونٹ بنا تو وہ گورنر مغربی پاکستان بنے۔ عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فلاحی کاموں خاص طور پر تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا ۔ انہوں نے گرمانی فاونڈیشن قائم کی اور اسی کے تحت لاہور یونی ورسٹی آف مینیجمنٹ سائینسز میں گرمانی سکول آف سوشل سائنسز بنا۔

3:ڈاکٹر اے ایم ملک۔۔۔ وزیر صحبت، ،محنت اور منصوبہ جات

24 اکتوبر 1951 تا 17 اپریل 1953

ان کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا ۔ انہوں نے آسٹریا سے طب کی تعلیم حاصل کررکھی تھی جب کہ وہ ٹریڈ یونین سے بھی وابستہ تھے۔ لیاقت علی خاں کی کابینہ میں بھی وہ وزیر صحت اور محنت رہے تھے اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی انہیں یہ ہی محکمے ملے ۔ بعد میں وہ مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ۔ 1969 میں یحیٰ خان کی مارشل لا حکومت میں وہ وزیر صحت رہے۔ اگست 1971 میں وہ مشرقی بنگال میں گورنر بنائے گئے۔ اسی دوارن بھارتی طیاروں نے گورنمنٹ ہاوس ڈھاکہ پر بمباری بھی کی۔ انہوں نے ریڈ کراس میں پناہ لی ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہیں عمر قید کی سزادی گئی۔

4:ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی۔۔۔وزیر برائے مہاجرین اور آبادکاری، اطلاعات و نشریات

26 نومبر 1951 تا 17 اپریل 1953

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریسی یا آئی ایچ قریشی تاریخ کے طالبعلموں کے لیے ایک گھریلو نام ہے۔ انہوں نے تاریخ کے مختلف دھاروں اور زمانوں پر کئی کتب لکھی ہیں۔ آپ بھی الہ آباد کے قریب پٹیالی گاوں میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم سینٹ سٹیفنز کالج دہلی سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی تاریخ کیمبرج یونیورسٹی یوکے سے کیا۔ کچھ عرصہ سینٹ سٹیفنز کالج میں تاریخ بھی پڑھاتے رہے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی بنے ۔ یہ وہی دور ہے جب تقدیم ہند کےوقت ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور انہیں 1948 میں پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ وہ دستور مجلس پاکستان کے ممبر بھی بنے اور ساتھ ہی ساتھ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ لیاقت علی خان کی حکومت میں کچھ عرصے کے لیے وزیر مملکت برائے داخلہ اور مہاجرین بھی رہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے بانی سربراہ مقرر ہوئے ۔ خواجہ ناظم الدین حکومت میں وہ وزیر اطلاعات و نشریات کے ساتھ ساتھ مہاجرین اور آبادکاری کے وزیر بھی رہے۔

5:غیاث الدین پٹھان وزیر مملکت برائے خزانہ اور پارلیمانی امور

19 اگست 1952 تا 17 اپریل 1953

ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ۔ بس یہی کہ یہ پہلی مجلس دستور ساز کے ممبر تھے اور لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی وزیر مملکت رہے۔ اس سے پہلے غیاث الدین پٹھان خواجہ ناظم الدین حکومت میں 24 اکتوبر 1951 سے 19 اگست 1952 تک ڈپٹی وزیر بھی رہ چکے تھے۔

6:سر محمد ظفراللہ خان ۔۔ وزیر خارجہ پاکستان

24 اکتوبر 1951 تا 17 اپریل 1953

سر محمد ظفراللہ جو لیاقت علی کی وزارت میں بھی وزیر خارجہ تھے ۔ خواجہ ناظم الدین کے دور میں بھی وہی رہے۔ وہ قادیانی تھے اور مختلف حلقوں میں ان کی سخت مخالفت کی جارہی تھی۔ ان کے دور وزارت میں انہوں نے پاکستان کے تشخص کے لیے بہت کام کیا۔ کشمیر کے معاملے پر نہ صرف بھارت بلکہ اقوام متحدہ کے لیول پر پاکستان کے لیے کوشش کی۔ وہ قادیانی تھے اور اس کا اظہار بھی وہ برملا کرتے تھے۔ اسی دوران میں 1953 میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور لاہور پر پاکستان کا پہلا مارشل لا بھی لگا۔

7:سردار بہادر خان وزیر مواصلات

24 اکتوبر 1951 تا 17 اپریل 1953

یہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھتے تھے ۔ جنرل ایوب خان کے بھائی تھے ۔یہ پہلے این ڈبلیو ایف پی ( موجودہ خیبر پختونخواہ) کی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے تھے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کی وزارت میں سردار بہادر خان ، وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے ساتھ ساتھ کشمیرامور رہے بعد میں 1949 میں مکمل وزیر کا درجہ ملا اور لیاقت علی خاں کے دور میں ہی وہ مواصلات کے وزیر رہے۔ یہ کچھ عرصہ بلوچستان کے چیف کمشنر بھی رہے تھے ۔ اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور صدارت میں وہ قائد حزب اختلاف رہے تھے۔

8:اے کے بروہی وزیر قانون ، پاارلیمانی امور، اقلیتی امور اور اطلاعات و نشریات

17 اپریل 1953 تا 24 اکتوبر 1954

اللہ بخش کریم بخش بروہی سندھ کے علاقے شکارپور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ قانون کی مشہور فرم رام جیٹھ ملانی سے تعلق رکھتے تھے۔ محمد علی بوگرہ حکومت میں وہ وزیر قانون رہے ۔ بعد میں انہوں اٹارنی جنرل آف پاکستان کے طور پر بھی کام کیا ۔ ضیا الحق کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے ۔ ضیا دور میں بھی وزیر قانون کے طور پر کام۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے قریبی عزیز بھی تھے۔

9:خان عبدالقیوم خان وزیر برائے خوراک، زراعت ، صنعت اور تجارت

18 اپریل 1953 تا 24 اکتوبر 1954

خان عبدالقیو خان قیام پاکستان سے پہلے کانگریس کے اہم رکن تھے اور خیبر پختونخواہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر صوبائی مجلس قانون ساز کے رکن بن چکے تھے۔ بعد میں جب وہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو مسلم لیگ کو خیبر پختونخواہ میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ شروع میں انہوں نے خدائی خدمتگار تحریک اور ڈاکٹر خانصاحب پر کتاب لکھی تھی ، جب وہ وزیر اعلیٰ شمالی مغربی سرحدی صوبہ بنے تو انہوں نے اپنی ہی کتاب بین کردی۔ انہوں نے بطور وزیر خوارک کافی کام کیے۔

10:شعیب قریشی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مہاجرین ، سرحدی امور اور امور کشمیر

18 اپریل 1953 تا 24 اکتوبر 1954

11:تفضل علی وزیر برائے تجارت

17 دسمبر 1953 تا 4 اکتوبر 1954

اسکے بارے میں معلومات میسر نہیں ۔۔

وزرائے مملکت

غیاث الدین پٹھان وزیر مملکت برائے زراعت، اقلیتی امور اور پارلیمانی امور

7 دسمبر 1953 تا 24 اکتوبر 1954

ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ۔ بس یہی کہ یہ پہلی مجلس دستور ساز کے ممبر تھے اور لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی وزیر مملکت رہے۔ اس سے پہلے غیاث الدین پٹھان خواجہ ناظم الدین حکومت میں 24 اکتوبر 1951 سے 19 اگست 1952 تک ڈپٹی وزیر بھی رہ چکے تھے۔

سردار امیر اعظم خان وزیر مملکت برائے دفاع

7 دسمبر 1953 تا 24 اکتوبر 1954

سردار امیر اعظم خان کے آباو اجداد کا تعلق باجوڑ تھا لیکن وہ عرصہ پہلے اتر پردیش میں آباد ہوچکے تھے۔ سردار امیر اعظم کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں پنجاب میں گجرات میں تعینات تھے اور یہان سردار امیر اعظم پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اٹک سے حاصل کی اور بعد میں وہ علی گڑھ چلے گئے ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ نوبزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ یہی سے ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ روالپنڈی میں مقیم ہوئے ۔ یہاں انہوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ممبر دستور ساز اسمبلی منتخب ہوئے ۔ جب نوابزاہ لیاقت علی خان کی راولپنڈی کے موجودہ لیاقت باغ میں شہادت ہوئی تو امیر اعظم خان عینیی شاہد تھے۔

سردار امیر اعظم اس سے پہلے بھی وزارت دفاع کا قلمدان سمبھا ل چکے تھے ۔ یہ بوگرہ حکومت میں پہلی بار تھا کہ وہ ایک حاضرسروس کمانڈر پاکستان آرمی کے ساتھ بھی کام کررہے تھے۔ امیر اعظم خان کو پاکستان میں کم سرمائے والے گھروں کا بانی بھی کہاجاتاہے ، اس علاوہ پاکستان کی پہلی فضائی کمپنی پاکستان ایرویز کے بھی وہ چیرمین رہ چکے ہیں۔ 1958 کےمارشل لا کے بعد امیر اعظم خان نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ پاکستان کے پہلے آئیں کا مسودہ تیار کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے

مرتضیٰ رضا چوہدری وزیر مملکت برائے خزانہ

7 دسمبر 1953 تا 24 اکتوبر 1954

مرتضیٰ رضا چوہدری کا تعلق مشرقی بنگال کے نواب گنچ کے علاقے سے تھا ۔ وہ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی( قانون ساز و دستوار اسمبلی) کے ممبر رہے۔ بوگرہ حکومت میں وہ وزیر مملکت برائے خزانہ رہے۔ اس سے پہلے وہ مشرقی بنگال میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے تھے ۔

تشکیل نو کے بعد محمد علی بوگرہ کابینہ

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

شہرہ آفاق جریدہ ٹائم میگزین نے یکم نومبر 1954 کو لکھا ” Friend in Trouble

In Washington last week, the U.S. Government showered $105 million in economic aid and $50 million in military aid on Pakistan’s likable Prime Minister Mohammed Ali. In him the U.S. recognized a friend; in his country the U.S. recognized an Asian nation steadfast in its resistance to Communism. Unfortunately, just at the climactic moment, Ali had to cut short his trip and hurry home. In Karachi 70 hours later, Mohammed Ali was all but stripped of power.

“The Governor General has with deep regret come to the conclusion,” read the official Pakistan communique, “that the constitutional machinery has broken down . . . The Constituent Assembly has lost the confidence of the people and can no longer function . . . Elections will be held as early as possible.” Meanwhile, Ali would remain in office with a “reconstituted” Cabinet, but real power would reside with the Governor General, a financial wizard of 59 named Ghulam Mohammad.

Ghulam Mohammad is officially the Pakistani representative of the British Crown (Pakistan remains within the British Commonwealth) ; since Pakistan in its seven years has yet to get itself a Constitution or hold a national election, it is hard to determine where power officially resides. In practice it remains in the hands of a small, powerful group of Moslem leaders who control the tough 250,000-man army, run the everyday life of Pakistan and are chiefly responsible for the nation’s stability. Governor General Ghulam Mohammad is one of them. In April 1953 Ghulam Mohammad casually dismissed a roly-poly Premier named Nazimuddin for incompetence and appointed the little-known Mohammed Ali in his stead. Ali had been a highly successful Ambassador to the U.S. but had no political strength of his own. Progressive-minded, he opposed those who wanted Pakistan to become a rigidly theocratic state. Ghulam Mohammad and Ali together negotiated the U.S.-Pakistan alliance.

Before heading for the U.S. this month, however, Ali put through an amendment to Pakistan law that would specifically forbid the Governor General from firing Prime Ministers. Last week, with Ali away, Ghulam Mohammad struck back: he withdrew an order that disqualified four of Ali’s most dangerous rivals from holding public office. Several Moslem League leaders, including two members of Ali’s Cabinet, chose this moment to gang up on Ali. Ali flew home in a hurry. From Karachi airport Ali moved directly into conference with Ghulam Mohammad. “Reform your Cabinet,” ordered Ghulam Mohammad, and Ali had to comply. Until the elections, which would show the U.S. which way its new ally was heading, the Pakistani to watch would be Governor General Ghulam Mohammad.

‘’ اسکا لب لباب یہ ہے کہ محمد علی بوگرہ کو امریکہ کا دورہ مختصر کرکے واپس جانا پڑا کیونکہ گورنرجنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی جس پر حکومت استوار تھی توڑ دی تھی۔ یہ سب کچھ اس کے باجود تھا کہ محمد علی بوگرہ کی کوششوں سے امریکہ نے پاکستان کو ایک خطیر رقم امداد کے طور پر د ی تھی ۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ محمد علی بوگرہ نے ایک سپیشل ترمیم کی تھی جس کے تحت گورنرجنرل غلام محمد کو اسمبلی برخاست کرنے سے روکا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پاکستان میں گورنر غلام محمد جو ابھی تک تاج برطانیہ کا نمائندہ تھا وزیر اعظم کی نسبت زیادہ بااختیار تھا ۔ علی نے قانون میں جو ترمیم کی تھی نہ صرف گورنر جنرل نے وہ ختم کردی بلکہ علی کے مخالف سیاستدانوں پر سے بھی پابندی ہٹا دی ۔ محمد علی بوگرہ کے کچھ وزیر بھی مخالفین کے ساتھ مل گئے تھے۔ ایر پورٹ سے سیدھا گورنرجنرل کے ساتھ میٹنگ میں گورنرجنرل سے محمد علی بوگرہ کو یہ حکم دیا کی جاو اور دوبارہ کابینہ بناو اور امریکہ کو نظر آگیا تھا کہ مستقبل میں جو بھی بات کرنی ہے وہ گورنر جنرل سے کرنی ہے ۔

محمد علی بوگرہ وزیر اعظم

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

وزیر خارجہ و دولت مشترکہ اور کمیونی کیشنز اور صحت ان کے پاس رہے ۔ کابینہ ڈویژن کی ویب سائیٹ پر پاکستان کی پرانی کابینہ کے حوالے سے جو معلومات درج ہیں کے مطابق محمد علی بوگرہ نے وزارت خارجہ کا چارج اپنے پاس ہی رکھا۔

1:چوہدری محمد علی خزانہ، مہاجرین ،معاشی امور،کشمیر امور رہے،

چوہدری محمد علی ، چالندھر سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے لاہور سے سائنس میں تعلیم حاصل کی اور ایم ایس سی کیمسٹری کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں انہوں نے انڈین سول سروس جوائن کرلی ۔ 1936 میں وہ اس وقت کے وزیر خزانہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1946-47 میں وہ ہندوستان کے سیکریٹری خزانہ بنے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ وزیر خزانہ غلام محمد کی وزارت کے دور میں سیکرٹری خزانہ تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت میں انہیں وزیر خزانہ بنایاگیا ۔بعد میں چوہدی محمد علی پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے۔ اور انہی کے دور میں پاکستان کا پہلا آئین جسے 1956 کا آئین کہتے ہیں لاگو ہوا

2:ڈاکٹر ایم ملک وزیر برائے محنت ، صحت، منصوبہ جات تھے

ان کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا ۔ انہوں نے آسٹریا سے طب کی تعلیم حاصل کررکھی تھی جب کہ وہ ٹریڈ یونین سے بھی وابستہ تھے۔ لیاقت علی خاں کی کابینہ میں بھی وہ وزیر صحت اور محنت رہے تھے اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی انہیں یہ ہی محکمے ملے ۔ بعد میں وہ مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ۔ 1969 میں یحیٰ خان کی مارشل لا حکومت میں وہ وزیر صحت رہے۔ اگست 1971 میں وہ مشرقی بنگال میں گورنر بنائے گئے۔ اسی دوارن بھارتی طیاروں نے گورنمنٹ ہاوس ڈھاکہ پر بمباری بھی کی۔ انہوں نے ریڈ کراس میں پناہ لی ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہیں عمر قید کی سزادی گئی۔

3:میجر جنرل سکندر مرزا وزیر داخلہ، ریاستیں اور کشمیر امور

24 اکتوبر 1954 تا 7 اگست 1955

میجر جنرل سکندر مرزا کے بارے میں زیادہ تر یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل اور پہلے صدر تھے اور یہ کہ انہوں نے پاکستان پر پہلا مارشل لا گو کیا۔ انہیں سیاست میں فوج کی مداخلت کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور یہ بھی کہ وہ مظلوم بھی گردانے جاتے ہیں۔۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰ خان نے سکدنر مرزا کی میت تک کو پاکستان میں نہیں آنےدیا تھا۔ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں وہ وزیر داخلہ کی حیثیت دے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ گورنرمشرقی بنگال رہ چکے تھے۔ سکندر مرزا سیاست میں آنے سے پہلے سول سروس میں تھے اور اس سے پہلے برطانوی راج میں فوج میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔

سکندر مرزا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک دلچسپ کردار ہے۔ یہ مرشد آباد موجود بنگلہ دیش میں ایک امیر گھر انے میں پیدا ہوئے۔ انہیں بنگال کے نواب بھی کہا جاتا تھا۔ یہ میر جععفر کے پڑ پوتے تھے۔ سکندر مرزا پر ایک کتاب ان کے صاحبزادے نےلکھی ہے جو کافی دلچسپ ہے ۔ وزیر بننے کے بعد سکندر مرزا نے پاکستان کی سیاست میں وہ کردار ادا کیا جس کی باز گشت آج تک سنائی دیتی ہے۔ 6 اگست 1955 کو سکدنر مرزا نے گورنر جنرل غلام محمد کی شدید علالت کے باعثث سبکدوشی کے بعد پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا۔ کچھ ہی عرصے بعد گورنرجنرل سکندر مرزا اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے درمیان اختلاف شدت اختیار کرگئے اور اس بار بھی وزیر اعظم کوہی جانا پڑا۔

4:ایم اے ایچ اصفہانی وزیر برائے صنعت و تجارت

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

مرزا ابو الحسن اصفہانی جو اپنے مختصر نام ایم اے ایچ اصفہانی کے نام سے جانے جاتے تھے ، قیام پاکستان سے پہلے ہی مجلس دستور ساز کے ممبر تھے ۔قیام پاکستان کے بعد بھی یہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں انہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے سفارتکاری کی ذمہ داریاں دیں ۔ پہلے انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر لگایا گیا۔ وہ لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہے۔ محمد علی بوگرہ حکومت میں وہ پہلی دفعہ وزیر بنے۔ 1973-74 میں وہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہے ۔ ان کےایک صاحبزادے بھی پاکستان کے سفیر رہے جب کہ ان کی پوتی فرح ناز اصفہانی امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی اہلیہ ہے ۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں مختلف عہد وں پر فائز رہیں اس کے علاوہ ممبر قومی اسمبلی بھی رہی ہیں ۔

5:جنرل ایوب خان وزیر دفاع

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر ان چیف پاکستان آرمی ، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان ، جنرل ایوب خان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور ہزارہ سے تھا ۔ فوج میں ترقی کرتے کرتے کمانڈر ان چیف بری افواج بن گئے اور 24 اکتوبر 1954 کو پاکستان کے وزیر دفاع کا چارج بھی مل گیا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے ، انہیں بھی پاکستان سیاست کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ یوں سیاست میں ان کی دلچسپی اور بڑھ گئی یہاں تک کہ میجر جنرل اور صدر اسکدندر مرزا نے جب ایوب خان کو 7 اکتوبر 1958 کو انہیں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹڑ بنا یا تو 20 دنوں کے اندر اندر جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو بھی سبکدوش کرکے لندن بھیج دیا ۔ یہ پاکستان کا جمہوریت سے آمریت کی طرف مکمل قدم تھا ۔ دلچسپ یہ ہے کہ سکندر مرزا نے جنرل ایوب کی مدت ملازمت میں جون 1958 میں دو سال کی توسیع کی ۔ مصنف اور سول بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کے مطابق سکندر مرزا اگر یہ توسیع نہ کرتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی ۔

6:غیاث الدین پٹھان خوراک، زراعت ، اقلیتی امورپارلیمانی امور اس سے پہلے بھی یہ وزیر رہ چکے تھے۔

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

19 اگست 1952 تا 17 اپریل 1953

ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ۔ بس یہی کہ یہ پہلی مجلس دستور ساز کے ممبر تھے اور لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی وزیر مملکت رہے۔ اس سے پہلے غیاث الدین پٹھان خواجہ ناظم الدین حکومت میں 24 اکتوبر 1951 سے 19 اگست 1952 تک ڈپٹی وزیر بھی رہ چکے تھے۔

7:میر غلام علی تالپوروزیر برائے اطلاعات و نشریات تعلیم

24 اکتوبر 1954 تا 18 مارچ 1955

یہ غلام علی تالپور کا تعلق ٹنڈو محمد خان سندھ سے تھا ۔ سرغلام حسین ہدایت اللہ کی وزیر اعلیٰ سندھ کی کابینہ میں 1937أ38 میں وزیر رہے ۔ قیام پاکستان کےبعد انہیں محمد علی بوگرہ نے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ میر غلام علی تالپور اوزیر اعلیٰ سندھ بھی رہے ۔ انہوں ون یونٹ کی مخالفت کی تھی جس کی پاداش میں انہیں کئی مصیبتوں بھی جھیلنی پڑیں۔

8:ڈاکٹر خانصاحب ( خان عبدالجبار خان) وزیر برائے مواصلات

28 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

خان برادارن سے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تھوڑا بہت بھی تعلق رکھنے والا جانتا ہے۔ خان عبدالغفار اور خان عبدالجبار ۔شروع سے ہی کانگریس پارٹی کےرکن تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستانی سیاست میں متحرک ہوئے۔ سیاسی جماعتیں بھی بنائیں اور وزاتوں میں بھی شامل ہوئے ۔ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں وزیر مواصلات رہے ۔ بعد میں مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ ڈاکٹر خاں صاحب کی زیادہ تر سیاست اپنے بھائی خان عبدالغفار عرف باچا خان کے ساتھ تھی لیکن جب ڈاکٹر خانصاحب نے سکندر مرزا کےساتھ مل کر ریپبلکن پارٹی بنائی تو دونوں بھائی علٰیحدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر خان صاحب کو 1958 میں لاہور میں قتل کردیاگیا۔

9:حبیب ابراہیم رحمت اللہ وزیر برائے تجارت

26 نومبر 1954 تا 11 اگست 1955

حبیب رحمت اللہ کا تعلق ممبئی سے تھا ۔ وہاں ان کے والد اور چچا ممبئی کے میر رہ چکے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان آئے تو انہوں نے سفارتکاری میں اپنا لومنوایا اور کئی سفارتی خدمات سرانجام دیں ۔ انہیں پہلے گورنر سندھ اور بعد مختصر عرصے کے لیے گورنر پنجاب بھی مقرر کیا گیا۔ بعد میں وہ پاکستان کے وزیر تجارت رہے ۔ عالمی سطح پر کافی متحرک تھے اور اسی بنا پر تجارتی محاذوں پر بھی کافی پذیرائی ملی۔ وہ 1991 کو کراچی میں فوت ہوئے ۔ ان کے نام پر ایک سڑک کراچی میں واقع ہے۔

10:حسین شہید سہروردی وزیر قانون

20 دسمبر 1954 تا 11 اگست 1955

حسین شہید سہروردی بنگال کے ان نامور سیاستدانوں میں سے ہیں جنہیں قیام پاکستان سے پہلے بھی اہم عہدوں پر رہنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے بنگال کے آخری وزیر اعظم بھی تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی وہ مشرقی بنگال کی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ محمد علی بوگرہ حکومت میں وزیر قانون رہے۔ محمد علی بوگرہ نےجب دوبارہ کابینہ تشکیل دی تو بھی وہ وزیر قانون رہے۔ بعد میں محمد علی بوگرہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بھی رہی ۔ ان کی پوتی بیرسٹر شاہدہ جمیل بھی پاکستان کی وزیر قانون اور وزیر ماحولیات رہ چکی ہیں۔

11:سید عابد حسین وزیر برائے خوراک و تعلیم

18 دسمبر 1954 تا 11 اگست 1955

کرنل عابد حسین کا تعلق جھنگ کے سید گھرانے سے تھا۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی عملی سیاست میں حصہ لے رہے تھے۔ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں وہ پہلی دفعہ وزیر بنے ۔ اس کے بعد ملک فیروزخان کی کابینہ میں شامل تھے۔ ان صاحبزاہ سیدہ عابدہ حسین متعدد مرتبہ ممبر پارلیمنٹ بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہی ہیں۔ اب سید عابد حسین کا دوہتا اور دوہتی عملی سیاست میں ہیں۔

12:سردار ممتاز علی خان اطلاعات و نشریات اور کشمیر امور وزیر برائے

22 دسمبر 1954 تا 11 اگست 1955

ان کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں

13:ابو حسین سرکار وزیر برائے صحت

4 جنوری 1955 تا 6 جون 1955

ابو حسین سرکار کا تعلق بنگال سے تھا ۔ وہ 1894 میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتداہی سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور اسی وجہ سے وہ جیل میں بھی گئی ۔ تعلیم کا سلسلہ کبھی جڑتا کبھی ٹوٹتا۔ تاہم بعد میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ بعد میں محمد علی بوگرہ حکومت میں وہ وزیر مملکت بھی رہے۔ چوہدری محمد علی کی کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ وہ 1969 میں ڈھاکہ میں فوت ہوئے۔

وزرائے مملکت

سردار امیر اعظم خان وزیر مملکت برائے مہاجرین و آبادکاری، دفاع

24 اکتوبر1954 تا 11 اگست 1955

سردار امیر اعظم خان کے آباو اجداد کا تعلق باجوڑ تھا لیکن وہ عرصہ پہلے اتر پردیش میں آباد ہوچکے تھے۔ سردار امیر اعظم کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں پنجاب میں گجرات میں تعینات تھے اور یہان سردار امیر اعظم پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اٹک سے حاصل کی اور بعد میں وہ علی گڑھ چلے گئے ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ نوبزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ یہی سے ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ روالپنڈی میں مقیم ہوئے ۔ یہاں انہوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ممبر دستور ساز اسمبلی منتخب ہوئے ۔ جب نوابزاہ لیاقت علی خان کی راولپنڈی کے موجودہ لیاقت باغ میں شہادت ہوئی تو امیر اعظم خان عینیی شاہد تھے۔

سردار امیر اعظم اس سے پہلے بھی وزارت دفاع کا قلمدان سمبھا ل چکے تھے ۔ یہ بوگرہ حکومت میں پہلی بار تھا کہ وہ ایک حاضرسروس کمانڈر پاکستان آرمی کے ساتھ بھی کام کررہے تھے۔ امیر اعظم خان کو پاکستان میں کم سرمائے والے گھروں کا بانی بھی کہاجاتاہے ، اس علاوہ پاکستان کی پہلی فضائی کمپنی پاکستان ایرویز کے بھی وہ چیرمین رہ چکے ہیں۔ 1958 کےمارشل لا کے بعد امیر اعظم خان نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ پاکستان کے پہلے آئیں کا مسودہ تیار کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔

مرتضیٰ رضا چوہدری وزیر مملکت برائے خزانہ

24 اکتوبر 1954 تا 11 اگست 1955

مرتضیٰ رضا چوہدری کا تعلق مشرقی بنگال کے نواب گنچ کے علاقے سے تھا ۔ وہ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی( قانون ساز و دستوار اسمبلی) کے ممبر رہے۔ بوگرہ حکومت میں وہ وزیر مملکت برائے خزانہ رہے۔ اس سے پہلے وہ مشرقی بنگال میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے تھے ۔

Share With:
Rate This Article