29 April 2024

Homecolumnبریڈلا ہال : لاہورمیں اولین سیاسی سرگرمیوں کا مرکز جو اب جسم ناتواں بن چکا

بریڈلا ہال : لاہورمیں اولین سیاسی سرگرمیوں کا مرکز جو اب جسم ناتواں بن چکا

columnist Raza Kharal

بریڈلا ہال : لاہورمیں اولین سیاسی سرگرمیوں کا مرکز جو اب جسم ناتواں بن چکا

تحریر: رضا کھرل

ضلع کچہری کے قریب ریٹی گن روڈ پر ، یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے مین گیٹ کے بالکل سامنے ، آٹو پارٹس کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک گلی اندر کو جاتی ہے۔ تھوڑا چلتے ساتھ ہی پر نٹنگ پریسوں کے شور کے تھمتے ہی بچوں کے کھیلنے کی آوازیں آتی ہیں ۔ ضروری نہیں کہ یہ منظر ہر وقت ہو ، دکانیں بند بھی ہوسکتی ہیں اور بچے سکولوں میں بھی ہوسکتے ہیں۔

نظریں جیسے ہی اٹھتی ہیں تو سامنے سرخ اینٹوں کی بلند عمارت کا سامنا ہوتا ہے۔ میرے اندازے سے اس وقت بھی یہ کم و بیش سو فٹ اونچی اور ستر سے اسی فٹ چوڑی عمارت ہے۔ سامنے والے حصے پر منزل در منزل کھڑکیاں اس کے فن تعمیر کو اچھوتا بنا دیتی ہیں۔ مشرق اور مغرب کا ملاپ بھی کہ سکتے ہیں۔ یہ چارلس بریڈلا ہال ہے۔ چارلس بریڈلا نے اسے بنوایا اور نہ ہی اس نے اس کا افتتاح کیا بس اس عمارت کا چارلس بریڈلا سے موسوم کردیا گیا۔ وجہ کیا تھا یہ عقدہ بعد میں کھولتے ہیں پہلے اس عمارت کا تعارف کرالیں۔

1857 ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے ساتھ جہاں ہندوستانیوں میں بہت مایوسی تھی وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سورج بھی غروب ہوگیا تھا اور ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے تحت آگیا۔ اسکے بعد کی ہندوستان کی تاریخ ایک طرف تو برطانیہ کی طرف سے سیاسی اصلاحات سے لیس تھی جو وقتاً فوقتاً ہندوستان میں متعارف ہوتی رہیں تو دوسری طرف ہندوستانیوں کے اندر جدید اور مغربی تعلیم کے فروغ کی وجہ سے سیاسی شعور آگیا تھا اور وہ زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور حقوق کی بات کرنے لگے۔ انیسویں صدی کے آخر میں کئی سیاسی نیم سیاسی تنظیمیں وجودہ میں آئیں جن کی بدولت ہندوستانیوں کو مراعات میں اور زیادہ تیزی آئی ۔

شعور کے اس ارتقا میں ، بعض ایسے مقامات بھی آئے کہ ہندوستانی اپنے آقائوں یعنی برطانوی راج کے دو بدو بھی ہوگئے۔ انڈین نیشنل کانگرس کا قیام گو کہ ایک انگریز افسر کے ہاتھوں بتایا جاتا ہے مگر وقت ایسا بھی آیا کہ ہندوستان میں تاج برطانیہ کے لیے یہ سب سے بڑی مشکل بھی بن گئی۔

Bradlaugh Hall

پنجاب کانگریس کی تنظیم بہت تیزی سے پھیلی ۔ اس میں دیال سنگھ اور ایسے کئی لوگوں کا بڑا کردار ہے۔ یہ وہی دور تھا جب لاہور میں بھی کانگریس کا سالانہ اجلاس ہونے جارہا تھا ۔ یہ شاید 1889ء کی بات ہے۔ اس بڑے اجلا س کے لیے جو چندہ اکٹھا ہوا اتنا زیادہ تھا کہ بعد میں ان پیسوں سے ریٹی گن روڈ پر ایک بڑا ہال بنانے کا منصوبہ بن گیا ۔ دیال سنگھ کی ہی سربراہی میں یہ حال بیسویں صدی کے اوائل میں یہ ہال مکمل ہوچکا تھا اور اس کا نام بریڈلا ہال رکھا گیا ۔

چارلس بریڈلا ، برطانوی پارلیمنٹ کے رکن تھے اور انہوں نےہندوستانیوں کے لیے بہت کام کیا تھا۔ ان کے حقوق اور مراعات کے لیے چارلس بریڈلے کے حصے کو سراہنے کے لیے اس کانام بریڈلے ہال رکھا گیا ۔1900 ء میں کانگریس کے ایک معمر رہنما سریند ناتھ بینر جی کے ہاتھوں اس کا افتتاح بھی ہوا۔ یہ تختی بہت دیر تک اس ہال میں موجود تھی۔ اب چونکہ اندر جانے کی اجازت نہیں اور باہر سے ہی ہال کوآہنی دیوار کے ساتھ بند کر دیا گیا ہے، اس لیے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ صرف کانگریس ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے بھی اس ہال کو استعمال کیا۔ تحریک خلافت کے ایک جلسے میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی تشریف لائے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں تشریف لاتے رہے ، اس کے علاوہ مشاعروں میں بھی شریک ہوئے ۔ لاہور کا یہ پہلا غیرسرکاری ہال تھا ۔ سرکار کے پاس اس وقت دو ہال تھے ۔ ایک ٹائون ہال اور دوسرا منٹگمری ہال ( باغ جناح موجودہ قائد اعظم لائبریری )۔

یہاں ہی لالہ لاجپت رائے نے نیشنل کالج قائم کیا تھا اور مشہور آزادی کےمجاہد بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی سکھ دیو طالب علم تھے۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد لاہورمیں سب سے بڑا احتجاج بھی اسی ہال میں ہوا تھا۔ تحریک عدم تعاون کا مرکز بھی یہی ہال رہا ، بعد میں جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو سولی پر لٹکایا گیا تو یہاں ایک بڑا احتجاج ہوا۔

قصہ مختصر کہ یہ ہال زیادہ تر کانگریس، ہندو تنظیموں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا لیکن یہاں مسلمان بھی اپنے جلسے اور اجلاس کرتے رہے۔ متحدہ تحریکیں تو یہاں عام تھیں ۔ مسلمانوں نے بعد میں برکت علی اسلامیہ ہال بالمقابل موچی دروازہ بنوا تو پھر ان کی سرگرمیاں وہاں ہونے لگیں۔ اس کو کانگریس ہال بھی کہا جاتا تھا ۔ چالیس کی دہائی میں یہاں ثقافتی پروگرام بھی کثرت سے منعقد ہوتے تھے ۔ پارسی تھیٹر کے علاوہ اس وقت کی معروف گوکارائیں بھی یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ ان میں گوہر جان کا نام بہت نمایاں ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بریڈلا کا تعارف ہی بدل گیا ۔ محکمہ خوراک کا گودام رہا اور کبھی یہ لوہے کا کارخانہ ، کبھی مہاجرین کی رہائش گاہ ۔ اب ایک عرصے سے تالہ لگ چکا ہے اور ہال اپنے غم میں گھلتا جارہا ہے۔ بہتر تھا کہ یہاں کوئی سیاسی تحریکوں کا عجائب گھر بنا دیا جاتا ، کوئی لائبریری ہوتی یا کوئی ایسا ادارہ جہاں سے نوجوانوں کی تربیت کی جاسکے ۔ چارلس بریڈلا کا تعارف تو ادھورا رہ گیا ، وہ فقط ایک مرتبہ ہی لاہور آئے تھے جبکہ زیادہ تر زندگی انہوں نے اپنے دیس یعنی انگلستان میں ہی گزاری اور پھر وہیں راہی ملک عدم ہوئے۔

Share With:
Rate This Article