28 April 2024

Homecolumnمصنوعی ذہانت ، کاپی رائٹ اور صحافت کا مستقبل

مصنوعی ذہانت ، کاپی رائٹ اور صحافت کا مستقبل

columnist Atif Ashraf

مصنوعی ذہانت ، کاپی رائٹ اور صحافت کا مستقبل

تحریر: ڈاکٹر عاطف اشرف

صحافت اخبار کے صفحات سے اُڑ ی پھرریڈیو اور ٹی وی کی لہروں سے ہوتی ہوئی ڈیجیٹل دور میں داخل ہوئی۔ کئی روزگار ختم ہوئے اور کئی نئے ابھر کر سامنے آئے۔ انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب آنے کے بعد صحافت بھی اپنا حلیہ بدلتی رہی۔ لیکن اب مصنوعی ذہانت کے اس دور میں دنیا کی تاریخ کا ریکارڈ مرتب کرنے والے بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے اور وہ چیلنج ہے، ان کے کاپی رائیٹ کانٹینٹ کے استعمال کا۔ لیکن کاپی رائیٹ کے اس چیلنج کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں کیسے کسی بھی سوال کے جواب کا مواد خود سے تخیلق کرتی ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی،مائیکروسافٹ کو پائلٹ یا اس طرح کی دوسری مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں پہلے سے موجود مواد کو، جو کہ کاپی رائٹ بھی ہوسکتا ہے، اپنے اے آئی ماڈلز کوتربیت دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ پہلے سے موجود ایسےمواد کی فائلوں کی تعداد لاکھوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ اتنے بڑے ڈیٹا سیٹ کے ذریعے ٹرین کیا گیا ماڈل ایک ایسا چیٹ بوٹ بن جاتا ہے جو کسی بھی پرومنٹ کا جواب اسی ڈیٹا کی بنیاد پردیتا ہے۔ اے آئی بوٹس کے تخلیق کردہ مواد میں اصلی مصنف کے لکھنے کے انداز تک کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ جنریٹو اے آئی کی مدد سے تصاویر، ویڈیوز اور میوزک تک بنانا صرف ایک پرومٹ (مصنوعی ذہانت سے کیا گیا سوال) کی دوری پر ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بڑے بڑے بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز کا تخلیق کیا گیا اصلی مواد مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی ٹرین کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے تو یہ سیدھی سیدھی چوری نہیں؟کیونکہ ایک طرف اے آئی کمپنیاں کاپی رائٹ کانٹینٹ کو بغیر اجازت استعمال کررہی ہیں تو دوسری طرف پیشہ ور لکھاریوں کے روزگار اورصحافتی اداروں کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

کیونکہ اگرمصنوعی ذہانت رئیل ٹائم میں ہر سوال کا جواب انٹرنیٹ پرموجود ڈیٹا کو بغیراجازت استعمال کرتے ہوئے دیتی چلی جائے تو پھرمیڈیا ہاؤسز کی کیا ضرورت؟ لوگ اپنے ہر سوال کا جواب مصنوعی ذہانت سے نہیں لیں گے؟

اسی خدشے کو بھانپتے ہوئے امریکا کے مشہور اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے کانٹینٹ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے چیٹ جی پی ٹی سمیت ایسی کئی کمپنیوں کے خلاف دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنیاں اس کے کانٹینٹ کو بغیر اجازت استعمال میں لا کر اپنے چیٹ بوٹس کواس حد تک ٹرین کررہی ہیں کہ عوام کو معتبر خبریں دینے کے عمل میں یہ بوٹس اب نیویارک ٹائمز کے مقابلے میں آرہے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کا یہ دعویٰ بظاہر تو درست لگتا ہے لیکن اس کے جواب میں اے آئی کمپنیوں کی اپنی دلیل ہے جسے وہ قانونی ٹرم، “کاپی رائیٹ کے منصفانہ استعمال” سے جوڑتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی کے اوریجنل تخلیقی کام کواپنے اے آئی ماڈلز کو ٹرین کرنے کی اجازت منصفانہ استعمال کا نظریہ دیتا ہے۔ کیونکہ اوریجنل کام کی بنیاد پر ایک انٹرمیڈیٹ کاپی بنانا، اصلی کام کو کاپی کرنے سے قطعاً مختلف ہے۔ جیسے انسانوں کو دوسروں کے آئیڈیاز کو استعمال کرتے ہوئے سیکھنے کی اجازت ہے بالکل اسی طرح مشینوں کو بھی سکھایا جا رہا ہے۔

اے آئی کمپنیوں اور کانٹینٹ پروڈیوسرز کے درمیان کاپی رائیٹ کے منصفانہ استعمال کی اس رسہ کشی میں قانونی محاذآرائی کے ساتھ ساتھ مستقل حل کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ “انٹرسیپٹ” اور “را سٹوری” جیسے صحافتی ادارے بھی چیٹ جی پی ٹی کے خلاف کاپی رائیٹ کا دعویٰ دائر کر چکے ہیں۔ “گیٹی امیجز” نامی ویب سائٹ اے آئی ٹول “سٹیبلٹی اے آئی” کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا چکی ہے۔ صرف ادارے ہی نہیں، جارج آر مارٹن اور جان گریشام جیسے مشہور مصنف بھی کمپنی اوپن اے آئی کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر چکے ہیں۔ جہاں عدالت میں کیس ہو رہے ہیں وہیں اس چیلنج سے نمٹنے کے حل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کی تجویز ہے کہ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں کہ آے آئی کمپنیاں چیٹ بوٹ کو ٹرین کر نے کے لئے جو بھی مواد استعمال کریں اس کی لائسنس فیس اوریجنل کانٹینٹ پروڈیوسز کو ادا کی جائے یا کانٹینٹ کا کریڈٹ پروڈیوسز کو دیا جائے۔ اس معاملے میں ایک پیشرفت بھی سامنے آئی ہے۔ گوگل نے سوشل پلیٹ فام “ریڈیٹ” کے ساتھ چھ کروڑڈالر سالانہ کے عوض ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت گوگل اس پلیٹ فام سے رئیل ٹائم ڈیٹا حاصل کر سکے گا۔ اسی طرح میڈٰیا ہاؤس “ایگزل سپرنگر” نے اوپن اے آئی کےساتھ ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے جس کے نتیجے میں عام صارف چیٹ جی پی ٹی سے جواب لینے کے بعد سپرنگز کے اوریجنل کانٹینٹ کے لنکس بھی دیکھ سکے گا تاکہ سپرنگر کا کریڈٹ اسے مل سکے۔

مصنوعی ذہانت کے ساتھ رہنا ایک نیو نارمل ہوتا جا رہا ہے،اس کا مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر مسائل حل کرنے میں آسانی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ پرنٹ میڈیا تو اپنی آخری ہچکیاں لینے کے بعد انٹڑنیٹ پر نئی سانسیں بحال کرتا نظر آرہا ہے۔ روایتی ریڈیو بھی ڈیجیٹل لبادہ اوڑھ کرخبروں کےساتھ ساتھ پوڈ کاسٹ کا روپ دھار رہا ہے۔ ٹی وی مالکان سیٹلائیٹ کے چکر لگا کر اب ڈیجیٹل سپیس کو ایک کامیاب بزنس ماڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

لیکن اے آئی جیسا چیلنج پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ ٹیکنالوجی بدلنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کا فارمیٹ بدلتا رہا لیکن کانٹینٹ مستقل اور اوریجنل تھا۔ لیکن مصنوعی ذہانت نے اب کانٹینٹ کو بھی اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیا ہے۔ کوئی بھی صحافی یا تخلیق کار جیسے ہی اپنا کانٹینٹ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتا ہے، تو وہ اے آئی بوٹس کی پہنچ میں آجاتا ہے، پھرویسا ہی کانٹینٹ مصنوعی ذہانت دوبارہ تخلیق کر دیتی ہے جو کاپی رائٹ اور اس سے جڑے صحافت کے مستقبل کو سب سے بڑاخطرہ ہے۔ اے آئی کو استعمال کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن کاپی رائٹ کانٹینٹ کا کریڈٹ دینے کے لئے قانون سازی کرنا ہو گی تاکہ ہر فریق اپنی محنت کا معاوضہ لے سکے اور روزگار کے مواقع محدود ہونے کے بجائے وسیع ہوسکیں۔

Share With:
Rate This Article