HomeGazaغزہ کے یتیموں کے لیے غمگین عید

غزہ کے یتیموں کے لیے غمگین عید

gaza Eid in War

غزہ کے یتیموں کے لیے غمگین عید

غزہ: (ویب ڈیسک)ایک طرف دنیا بھر کے مسلمان عید کی تیاریاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف غزہ کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان سے عید کی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔

” یہ عید پچھلے سالوں کی عید جیسی نہیں ہے ۔ جنگ کی وجہ سے ہم نے اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا ہے۔”رفح کے شیر کی عمر 11 سال ہے۔ عید پر ان کے الفاظ میں ان کا درد محسوس کیا جا سکتا ہے۔

بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بچوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ کی کل بے گھر ہونے والی آبادی میں سے ایک فیصد ایسے بچے ہیں جو یا تو یتیم ہو چکے ہیں یا ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی بالغ نہیں ہے۔

یونیسیف کے مطابق ایسا کوئی امدادی کیمپ نہیں جہاں کوئی ایسا بچہ نہ ہو جس نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو دیا ہو۔ لایان اور اس کی 18 ماہ کی بہن سیوار اس جنگ میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو کھو چکے ہیں۔

غزہ شہر پر بمباری سے بچنے کے لیے ان کے خاندان کے تمام افراد نے العہلی اسپتال میں پناہ لی تھی۔ یہ گذشتہ سال اکتوبر میں ہوا تھا۔لایان کے گھر والے ہسپتال پر بمباری سے متاثر ہوئے۔ اس رات، لایان کے خاندان کے 35 افراد بمباری میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں لایان اور سیوار کے والدین اور پانچ بھائی بہن شامل تھے۔وہ کہتی ہیں، “ہمارے خاندان کو ہسپتال پہنچے ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ دو میزائلوں نے ہم پر تباہی مچادی۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو میں نے دیکھا کہ میرا پورا خاندان راکھ ہو چکا تھا۔”

غزہ شہر کے اس پرہجوم ہسپتال پر بمباری میں سیکڑوں افراد مارے گئے۔ فلسطینی اسلامی جہاد اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ لایان اور سیوار کوان کی خالہ پال رہی ہیں ۔ ان کے ساتھ اس نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک ریلیف کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔

اس بار عید کے موقع پر لایان کے لیے کوئی فیملی فنکشن نہیں ہوگا۔ جنگ میں اپنا سب کچھ کھونے سے پہلے لایان اپنے والدین کے ساتھ عید کے موقع پر نئے کپڑے خریدتی تھی۔ وہ عید کے لیے مختلف کھانے پکاتے تھے، جسے غزہ کے مقامی لوگ ‘مامول’ کہتے ہیں۔ عید پر پورا خاندان جمع ہوتا تھا اور سب مل کر عید مناتے تھے۔ لیکن اس سال ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ لایان کا کہنا ہے کہ اس بار عید پر ہمارے گھر کوئی نہیں آئے گا۔

جنگ کی وجہ سے پیسے کی کمی ہے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہیں۔ لیکن ان مشکل حالات میں بھی لایان کا کزن علی اس کی اور سیوار کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ علی نے اپنی مالی حالت کے مطابق دونوں بہنوں کے لیے کپڑے اور کھلونے خریدے ہیں۔24 سالہ علی غزہ سٹی کے علاقے زیتون میں اپنے خاندان کے 43 افراد کے ساتھ ایک عمارت میں رہتا تھا۔ اب اس کے خاندان کے باقی افراد جنوبی غزہ میں ایک خیمے میں رہتے ہیں۔

لایان کی طرح اس کا کزن محمود بھی غزہ کی جنگ میں یتیم ہو چکا ہے۔ محمود نے العہلی ہسپتال پر اسی بمباری میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو کھو دیا۔ بم گرنے کے وقت وہ ہسپتال کے احاطے میں موجود نہیں تھا، وہ اپنے اہل خانہ کے لیے پانی لانے نکلا تھا۔14 سالہ محمود کا کہنا ہے کہ “جب میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ” جنگ سے پہلے محمود باڈی بلڈنگ چیمپئن بننے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ وہ مصر میں منعقد ہونے والے ایک بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کی تیاری کر رہا تھا۔

محمود کا کہنا ہے کہ “اس بار عید کی کوئی خوشی نہیں ہے، ہم اس موقع پر اپنے گھر کی طرف جانے والی سڑک کو سجایا کرتے تھے۔ لیکن آج شاید ہم اپنے کیمپ کے قریب کچھ کر لیں گے۔”فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں ایسے بچوں کی تعداد 43 ہزار سے زائد ہے جو اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو چکے ہیں۔ درست اعداد و شمار تک پہنچنا مشکل ہے لیکن یونیسیف کا اندازہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں کم از کم 17 ہزار ایسے بچے ہیں جن کا کوئی سرپرست ان کے ساتھ نہیں ہے یا جو اس جنگ کے دوران اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں۔

عید کے موقع پر خاندان اکٹھے ہوتے ہیں اور کھانے پینے کے اچھے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن جنگ کے ماحول میں یہ سب کچھ بچوں کے لیے محض یاد بن کر رہ گیا ہے۔ ماجدکی عمر بیس سال ہے اور یہاں کے اکثر لوگوں کی طرح وہ بھی شمالی غزہ سے مصر کی سرحد پر واقع اس قصبے میں پہنچا ہے۔

ماجد نے فیصلہ کیا کہ وہ کیمپ کے بچوں اور ان کے اہل خانہ میں عید سے متعلق پکوان تیار کر کے تقسیم کرے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے پڑوسیوں کو کوکیز بنانے کی دعوت دی۔ماجد نصر کا کہنا ہے کہ “سادہ کوکیز بنانے کے لیے درکار اجزاء کی قیمت چار گنا بڑھ گئی ہے۔”

یہ نوجوان کیمپ میں خوبصورت گول کیک تقسیم کر رہا ہے۔ کیمپ میں تقریباً 60 خاندان ہیں اور وہ سب کو کچھ نہ کچھ دینا چاہتا ہے۔ غزہ کی پٹی میں تقریباً 170 ہزار بے گھر لوگ رہتے ہیں۔ ان سب کو کھانے پینے کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔

شمالی غزہ میں ایک سرکس عید کے موقع پر بے گھر لوگوں کے کیمپوں میں بچوں کی تفریح ​​کرنا چاہتی ہے۔نامساعد حالات کے باوجود احمد مصطفیٰ اور ان کے دوست امید کرتے ہیں کہ لاوارث بچے عید کے موقع پر شمالی غزہ میں سرکس کے ذریعے بے گھر افراد کے کیمپوں میں جا کر کچھ خوشیاں حاصل کریں گے۔

اس علاقے کے تین لاکھ لوگ قحط کے دہانے پر ہیں۔سرکس کے بانی مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ہم بچوں کی زندگی خوشیوں سے بھرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ عید منا سکیں۔

یہ سرکس سال 2011 ء میں قائم کیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے بچوں کو سرکس میں کام کرنا بھی سکھایا لیکن فضائی حملے میں ان کی عمارت پر بمباری ہوئی اور یہ سب رک گیا۔اس جنگ سے پہلے مصطفیٰ اور اس کے دس دوست سرکس کے ذریعے غزہ کے پارکوں میں بچوں اور گلی کوچوں کی تفریح ​​کرتے تھے۔

اب جب سرکس کا انعقاد ہوتا ہے تو پس منظر میں غزہ کی مسمار عمارتیں نظر آتی ہیں۔ یہ لوگ قلابازیاں کرتے ہیں اور مسخرہ بچوں کو بہت ہنساتا ہے۔ مصطفیٰ کہتے ہیں، “جب بھی ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو ہم بہت خوف کے عالم میں رہتے ہیں۔ لیکن ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ بچوں کو جنگ کے سانحے کو بھلانے میں مدد کی جائے۔”

بشکریہ: بی بی سی

Share With:
Rate This Article