Homecolumnکاغذ کے نوٹ، بے لگام مہنگائی اور ڈالر کی اجارہ داری، آخر کب تک؟

کاغذ کے نوٹ، بے لگام مہنگائی اور ڈالر کی اجارہ داری، آخر کب تک؟

columnist Dr Atif Ashraf

کاغذ کے نوٹ، بے لگام مہنگائی اور ڈالر کی اجارہ داری، آخر کب تک؟

تحریر: ڈاکٹر عاطف اشرف

آپ کے ذہن میں سوال تو ہوگا کہ دنیا ڈالر میں ہی تجارت کیوں کرتی ہے اور امریکا کو کیا ہے، ڈالر تو اس کی اپنی کرنسی ہے، جتنے مرضی کاغذوں کو ڈالر میں بدل دے، اسے کیا فرق پڑتا ہے؟

دنیا ڈالر کی محتاج ہے لیکن کیا امریکاکرنسی کسی کی محتاج ہے؟ سپر پاور کی سپر کرنسی نے دنیا کو کیسے قابو کیا ہوا ہے؟ اورکیا مستقبل میں ڈالر کی اجارہ داری قائم رہے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے سےپہلےہمیں ماضی میں جانا ہوگا۔

ڈالر میں لین دین ، انفلیشن یا مہنگائی اور زرمبادلہ کے درمیان تعلق کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مہنگائی آخر ہوتی کیوں ہے؟ آپ نے کبھی کسی جانور کو مہنگائی پر پریشان ہوتے نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ جانور کاغذی کرنسی استعمال نہیں کرتے بلکہ اصلی وسائل کو تلاش کرکے زندگی گزارتے ہیں۔ جانور اپنے کھانے پینے ، رہنے اور سونے کی بنیادی ضرورتیں اپنے ماحول سے پورا کر لیتےہیںلیکن انسان کی کہانی مختلف ہے۔

انسان جب اس دنیا میں آیا توضرورتوں کے ساتھ ساتھ اس کی خواہشات بھی تھیں جسے پورا کرنے کے لئے اسے دوسرے انسانوں کی ضرورت پڑی۔ وقت گزرتا گیا اور انسانی خاندان معاشرے اورمعاشرے ریاستوں میں بدل گئے۔ لین دین کے طریقے بھی بدل گئے ۔ پہلے بارٹر کا نظام رائج تھا یعنی چیزوں کے بدلے چیزیں یا خدمات کے بدلے بھی چیزیں ہی ملتی تھیں۔

کوئی لکڑ ہارا اپنی کلہاڑی بیچ کر اس کے بدلے کسی کسان سے گندم خرید لیتا تھایا کوئی مزدور کھیتوں کا م کا معاوضہ غلے کی صورت میں لیتا تھا۔ پھر سونے یا چاندی کے سکے جاری ہوئے اور ان کے بدلے تجارت ہونے لگی۔اور آج کل کاغذی نوٹ ہیں جنھیں فیئٹ کرنسی بھی کہا جاتا ہے اور یہی کرنسی تجارت اور ایکسچینج ریٹ کا ذریعہ ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلی سکوں کی جگہ علامتی کاغذ کے نوٹوں نے کیوں لی؟ اور اس سے فرق کیا پڑا؟ مہنگائی کے اس تعلق کو جاننے کے لئے ایک سادہ سی مثال ملاحظہ فرمائیں۔ مہنگائی کا تعلق طلب اور رسد سے ہے۔ یعنی اگر ایک چیز کی ڈیمانڈ بڑھ جائے تو قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور اگر ڈیمانڈ کم ہو تو قیمتیں بھی کم ہو جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان میں نمک ضرورت سے زیادہ دستیاب ہے، اس لئے اس کی قیمت بیس روپے کلو ہے۔ لیکن جن ملکوں کو نمک امپورٹ کرنا پڑتا ہے یا ڈیمانڈ زیادہ ہے وہاں مہنگا ملے گا۔ اب کرنسی نوٹوں نے جہاں تجارت آسان کی وہیں مہنگائی یا افراط زر کو بھی جنم دیا۔ دنیا میں جتنے وسائل موجود ہیں مثلاًزرخیز زمین ہے ، معدنیات ہیں، جنگلات ہیں، ان کو انسان اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ اسی زمین سے ہوائی جہاز نکلے، یہیں سے بجلی ، یہیں سے غلہ اور یہیں سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ انسان نے ایجاد کیے۔

لیکن آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ چیزوں اور خدمات کی ڈیمانڈ بڑھتی رہی ،وسائل محدود تھے۔ اس دنیا میں نکلنے والا سونا اور چاندی بھی محدود ہے،لیکن اس کے بدلے لامحدود کرنسی کے نوٹ چھاپ دیے گئے آگئے ہیں۔یعنی اصلی دولت یعنی سونا چاندی کی جگہ کاغذی اور علامتی کرنسی نے لے لی۔ اس گارنٹی سے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں موجود سونے چاندی کے ذخائر کے برابر ہی کرنسی چھاپ سکتے ہیں لیکن ایسا ہو نہ سکا اور نوٹ کاغذ میں بدلتے گئے۔ اعتبار ختم ہوتا گیا،کرنسی کی ڈیمانڈکم ہوئی اور اصلی وسائل یعنی غلہ، سونا اوردیگر دھاتوں کی ڈیمانڈ بڑھتی گئی، وجہ مہنگائی کی انتہا۔

اب کرنسی اور سونے کے ویلیو کے تعلق کو سمجھتے ہیں۔آج کل ایک گرام سونے کی قیمت تقریبا 19ہزار روپے ہے اور اگر اسی ایک گرام کا سکہ بنا لیا جائے اور اس کی ویلیو انیس ہزار روپے کے برابر رکھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ایک گرام سونا اگر سکے کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ویلیو ایک جتنی ہوگی۔ سکہ نہ چلے تو اسی سونے کے بدلے آپ برابر ویلیو کی کوئی چیز خرید سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر انیس ہزار کے کاغذ کے نوٹوں کی اصلی ویلیو دیکھیں تو وہ اصل میں صرف ایک کاغذ کا ٹکرا ہے، اس کی اپنی ویلیو صفر ہے۔

لیکن چونکہ ریاست نے اس کی ضمانت دی ہے اس لئےشہری نوٹ کی ویلیو اس پر پرنٹ ہونے والے عدد کے برابر ہی سمجھتے ہیں۔ اگر 100 لکھا ہے تو سو روپے کی ویلیو اور اگر پانچ ہزار لکھا ہے تو پانچ ہزار کی ویلیو ہی سمجھی جائے گی۔

اسی لئے ہر کرنسی نوٹ پر لکھا ہوتا ہے۔یہ نوٹ حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا۔ لیکن کاغذ چونکہ کاغذ ہے،اگر زیادہ نوٹ چھاپ لیں تو یہ معاشی خود کشی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی ویلیو اتنی گر جاتی ہے کہ زمبابوے جیسے ملک ایک سو ٹریلین ڈالر تک کا نوٹ بھی چھاپ چکے ہیں لیکن ویلیو پھر بھی ناں ہونے کے برابر تھی۔

اگر آج کرنسی نوٹ نہ ہوتے تو مہنگائی کا تصور بھی نہ ہوتا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے ایک درہم کا سکہ سوا چار گرام سونے سے بنتا تھا،یعنی جو سکے کی ویلیو وہی سونے کی ویلیو اس وقت ایک درہم کی ایک بھیڑ یا بکرا خریداجا سکتی تھی یعنی سوا چار گرام سونے کی ایک بھیڑآپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آج سونے کے ریٹ کے برابر سوا چار گرام سونا تقریباً پچاس ہزار روپے کا بنتا ہے اور آج بھیڑ کی قیمت بھی لگ بھگ پچاس ہزار روپے ہی ہے،یعنی مہنگائی نہیں بڑھی کرنسی ڈی ویلیو ہو گئی ہے۔

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہوگا،کہ کیا فرق پڑتا ہے ، اگر مہنگائی ہو رہی ہے تو ریاست کاغذ کے نوٹ زیادہ سے زیادہ چھاپ لے، اپنے قرضے میں اتار دے اور ملکی حالات بھی بہتر ہو جائیں تو اس کا جواب انتہائی سادہ ہے۔ اگر کوئی بھی ملک اپنے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپ لے تو ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصولوں کے مطابق کرنسی کی ویلو کم ہو جائے گی اور چیزوں کی ویلیو بڑھ جائے گی۔

انفلیشن اورپھر ہائپر انفلیشن یعنی مہا مہنگائی ہو جائے گی اور بریف کیس بھرے نوٹوں سے ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملے گا۔ا س کی مثال ہم وینزویلا ، زمبابوے اور ایران جیسے ملکوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے اپنی کرنسی کا معیار سونے یا چاندی کو بنانے کے بجائے امریکی ڈالر کو بنا لیا ہے،جس طرح آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں رو پے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے اور ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان ہے۔

پاکستان کو معیشت سنبھالنے کے لئے ڈالرز چاہیں اور ڈالر یا تو ایکسپورٹس بڑھانےسے آئیں گے اور یا بیرون ملک پاکسانیوں کے زر مبادلہ سے،تیسری صورت میں آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے جو ڈالرز میں ہی ملتا ہے۔

یوں سمجھ لیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اگر اندھا دھند نوٹ چھاپ لے تو وہ انفلیشن کا شکار ہو کر معاشی طور پر تباہ ہو جائے گا۔لیکن کیا امریکا جتنے مرضی ڈالر چھاپ لے ،اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ اس کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا بہت ضرورت ہے کہ ڈالر دنیا کی طاقتور ترین کرنسی کیسے بنا ؟

یہ بھی پڑھیں:

نظریہ ضرورت ! تعمیر پاکستان کی ٹیڑھی اینٹ

جولائی 1944 ءکی بات ہے،دوسری جنگ عظیم جاری تھی۔ امریکا کی ریاست نیو ہیمپشائر میں 44 ممالک کے 730 نمائندے جمع ہوتے ہیں اور معاشی مسائل کے حل کے لئے ایک ایسا معاہدہ طے کرلیتے ہیں جس سے ڈالر دنیا کی طاقتور ترین کرنسی بن جاتا ہے اور دنیا بھر میں تجارتی لین دین کے لئے ڈالر کا استعمال شروع ہو جاتا ہے۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک اپنی کرنسی کی قدر کا تعین سونے کی بنیاد پر کرتے تھےلیکن جنگ کے بعد کئی ممالک میں شدید معاشی بحران پیدا ہو گیا اور اپنے دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے کرنسی کی قدر کے تعین کے لیے سونے کا پیمانہ چھوڑ کر دیا گیا۔امریکا نے اپنے اتحادیوں برطانیہ ، فرانس اور اٹلی کو بھاری قرضے دیےاور 1920 ءتک امریکا دنیا کو قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ 1931 ء میں برطانیہ نے بھی گولڈ اسٹینڈرڈ کو چھوڑ دیا اور پھرعالمی تجارت میں پاؤنڈ کی جگہ بھی ڈالر نے لے لی۔

امریکا جنگ میں شامل اپنے اتحادیوں کو جو قرض دیتا تھا، اس کی دائیگیاں سونے میں وصول کرتا تھا،نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے تک دنیا میں سونے کے ذخائر کا زیادہ تر حصہ امریکا کے پاس چلا گیا تھا اور جن ممالک کے پاس سونے کے ذخائر تقریبا ختم ہو گئے تھے ،ان کے لئے واپس سونے کوکرنسی کا معیار بنانا ممکن نہیں تھا۔

1944ءوہ سال تھا جب 44 ملکوں کے نمائندوں نے امریکی ریاست نارتھ ہیمپشائر کے علاقے بریٹن وڈز میں ڈالر کو عالمی ریزرو کرنسی مان لیا۔ یہ معاہدہ بریٹن وڈز کے نام سے مشہور ہے۔ معاہدے کے تحت 44 کرنسی کی بنیاد سونے کے بجائے ڈالر پر رکھ لی گئی۔ اوریہیں سے ڈالر کی اجاری داری کا قائم ہو گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا وجہ تھی کہ دنیا نے سونے کو چھوڑ کر کاغذ کے ڈالر کو کرنسی کا معیاد بنانے پر آمادگی ظاہر کی؟ تو اس کا جواب ہے سونے کے ذخائر،ڈالر کا انتخاب کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت دنیا میں سونے کے سب سے زیادہ ذخائر امریکا کے پاس تھے اور ڈالر کی قدر کا تعین بھی سونے ہی سے ہوتا تھا ۔

اس وقت پینتیس ڈالر کا ڈھائی تولہ سونا آتا تھا۔دنیا نے سمجھا کہ ڈالر کا معیار سونا ہی ہے اس لئے امریکا پابند ہوگا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھے۔ وہ بھی سونے کے ذخائر کے برابرلیکن ایسا زیادہ دیر نہ چل سکا۔ایسا کیوں ہوا، یہ جاننےسے پہلے ریزرو کرنسی کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اس معاہدے کے بعد امریکی ڈالر کو ’ریزرو کرنسی‘ یا زرِمبادلہ کے لیے استعمال ہونے والی کرنسی کی حیثیت حاصل ہو گئی۔

ریزرو کرنسی سے مراد یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں مرکزی بینکوں کو سرمایہ کاری، ترسیلات، بین الاقوامی قرضوں اور درآمدات و برآمدات کی ادائیگیوں کے لیے اور مقامی سطح پر اپنی کرنسی کی قدر کے تعین کے لیے جس کرنسی کے ذخائر رکھنا ضروری ہوں گے وہ ڈالر ہی ہوگا۔

آپ روزانہ خبریں سنتے ہیں کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اتنے ارب ڈالر کم ہو گئے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ملک کی پوری معیشت ڈالر کی بنیاد پر ہی چل رہی ہے۔اگر ذخائر ختم کو دیوالیہ ہونے کا خدشہ بالکل ایسے ہی جیسے سری لنکا کے حالات ہم دیکھ چکے ہیں۔

ریزرو کرنسی ہی کی بنیاد پر مختلف چیزوں ، سونے اور تیل وغیرہ کی قیمتوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے کیوں کہ ان کی خریداری کے لیے بھی جو زرِ مبادلہ درکار ہوتا ہے وہ اسی ریزرو کرنسی یعنی ڈالر میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی ملک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ یا کمی وہاں کے معاشی حالات سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے ڈالر کو عالمی نظام معیشت میں اجارہ داری حاصل ہو گئی ہے۔

ڈالر کو ریزرو کرنسی کی حیثیت ملنے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک نے سونے کے ذخائر جمع کرنے کی بجائے امریکی ڈالر خریدنا شروع کر دیے۔لیکن 60 ء کی دہائی تک امریکا کے پاس زیرِ گردش ڈالر کے کرنسی نوٹوں کی قیمت کے اعتبار سے سونا کم پڑتا گیا۔ اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ امریکہ کے سونے کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ بالاخر اگست 1971 ء میں صدر نکسن نے ڈالر کے سونے میں قابلِ تبادلہ ہونے کے بریٹن وڈز سسٹم کا خاتمہ کر دیا اور ڈالر آزاد ہو گیا ۔لیکن اسی ڈالر نے پوری دنیا کے معاشی نظام کو جکڑ دیا۔ کاغذی ڈالر استحصالی حربے کے طور ہر سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار بن گیا اوراس کی بائی پراڈکٹ سود کی صورت میں دنیا کے گلے میں پڑ گئی۔

اقتصادی پابندیوں کا ہتھیار امریکہ کے پاس آگیا۔اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے اپنی شرائط پر غریب ملکوں کو ڈالروں میں قرض دے کر استحصال کرنے لگے اور مرضی کی پالیسیاں بنوانے لگے۔ مہنگائی بے لگام ہو گئی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو معیار زندگی نیچے آتا گیا۔

اب اس بنیادی سوال کی طرف آتے ہیں کہ امریکہ نے دنیا کو سونے کے بجائے کاغذ کے ڈالر پر تو لگا دیا اس کا اثر باقی ملکون کی کرنسی پر کیا پڑا؟کیا امریکہ ڈالر چھاپنے میں آزاد ہے؟کوئی پوچھنے والا نہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی ملک اپنی کرنسی زیادہ چھاپ لے تو انفلیشن اور ہائپر انفلیشن سے معیشت تباہ ہو جاتی ہے لیکن اگر امریکا مشکل وقت میں جتنے مرضی ڈالر چھاپ لے تو کیا امریکا میں مہنگائی نہیں بڑھے گی ؟

ماہرین کے نزدیک، امریکا کی حالت باقی ملکوں سے مختلف ہے، ڈالر چونکہ عالمی ریزرو کرنسی ہے ، جس طرح دوسری کرنسیوں کا معیار ڈالر ہے، ڈالر کا اپنا کوئی معیار ہی نہیں ہے۔ امریکا ڈالر چھاپنے میں آزاد توہے لیکن یہ پائیدار اور دیر پا نہیں ہوسکتا کیونکہ دنیا کے دوسرے ملک ڈالر کو ٹکر دینے کے لئے متبادل نظام کی طرف جا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر کے تما م ملکوں میں 70 فی صد زرِمبادلہ کے ذخائر ڈالر میں تھے لیکن اب یہ شرح 59 فیصد پر آ چکی ہے جو پچیس سال کی کم ترین سطح ہے۔ روس اور چین بھی امریکی ڈالر کو ٹکر دے رہے ہیں مثال کے طور پر جب صدر ٹرمپ نے 2018ء میں ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کر کے پابندیاں عائد کیں تو معاہدے میں شامل یورپی ممالک سمیت روس اور چین نے ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کے لیے ادائیگیوں کا متبادل نظام بنانا شروع کیا۔

اس کے علاوہ گزشتہ برس روس اور چین نے بھی باہمی تجارت میں ڈالر کا استعمال کم کر دیا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے امریکی ڈالر کے علاوہ سات دیگر کرنسیز بھی ریزرو کرنسی یا زرِمبادلہ کے طور پر منظور شدہ ہیں۔ ان میں آسٹریلوی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، کینیڈین ڈالر، چینی کرنسی یورو، جاپانی ین اور سوئز فرینک شامل ہیں۔

ان کرنسیز میں یورو اور چینی کرنسی کو ڈالر کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں جب کہ ڈیجیٹل کرنسی کو بھی مستقبل میں بین الاقومی سطح پر لین دین کے لیے استعمال کی دوڑ میں ڈالر کا حریف قرار دیا جا رہا ہے۔

لیکن اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں ڈالر کے سب سے بڑی ریزرو کرنسی کے مقام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور اگر امریکا قرض اتارنے کے لئے ڈالر چھاپنا شروع کر دیتا ہے تو زر مبادلہ کامتبادل نظام دھیرے دھیرے ڈالر کو لگام ڈال سکتا ہے۔اور ڈالر ڈی ویلیو ہونے سے امریکا میں مہنگائی اپنی حدوں کو چھونے لگے گی اورامکان ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی ڈالر پر عدم اعتماد کرکے ڈیجیٹل کرنسی کی طرف جانا شروع کر دیں گے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جاپان چین اور یورپی ممالک “سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی “کی بنیا دپر مانیٹری پالیسی پر عمل درآمد شروع کردیں تو اس سے گوبل ریزرد کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔کیونکہ سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی یا سی بی ڈی سی ایک ایسا ماڈل ہے جس کے تحت سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی جاری کرتا ہے، اور وہ پوری دنیا میں قابل قبول ہوتی ہے،ہر شہری ذاتی طور پر اپنا ڈیجیٹل اکاؤنٹ کمرشل بینکوں کے بجائے سنٹرل بینک میں کھول سکتا ہے۔

کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا اس وقت تک ڈالر چھاپتا رہے گا جب تک اس کا حریف چین اپنی ٹیکنالوجی، سیاسی وقت اور معاشی طاقت کے بل بوتے پر ڈ الر کےلئے کی بطور گلوبل ریزرو کرنسی خطرہ نہ بن جائے۔

مختصراً یہ کہ امریکا وقتی طور پر تو ڈالر چھاپ کر معیشت کو چلا سکتا ہے۔لیکن ہمیشہ کے لئے یہ ممکن نہیں ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی اور ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں، ڈالرکو بطور گلوبل ریزرو کرنسی قبول کرنا ہی چھوڑ دیں گی،لیکن سپرپاور کے طور پر امریکا مزاحمت کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، فی الحال ڈالر کاسکہ چلتا رہے گا۔

Share With:
Rate This Article