Homecolumnنظریہ ضرورت ! تعمیر پاکستان کی ٹیڑھی اینٹ

نظریہ ضرورت ! تعمیر پاکستان کی ٹیڑھی اینٹ

نظریہ ضرورت ! تعمیر پاکستان کی ٹیڑھی اینٹ

نظریہ ضرورت ! تعمیر پاکستان کی ٹیڑھی اینٹ

تحریر:ڈاکٹر عاطف اشرف

سپریم کورٹ کے جسٹس منیر کے قلم کی نوک سے نکلنے والا “نظریہ ضرورت” نہ صرف اب ہر شعبے میں چبھ رہا ہے بلکہ ہر طاقتور کو بھی عزیز ہے، ایک پولیس والا نظریہ ضرورت کے تحت قانون کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔

ایک وکیل نظریہ ضرورت کو اپنی ضرورت بناتے ہوئے تاریخ پر تاریخ لینے کی ڈگر پر چلتا ہے، مجرم لٹکے نہ لٹکے کیس لٹکنا چاہیے۔سڑکوں پر چلتی گاڑیاں ٹریفک سگنل کو چلتا کررہی ہیں صرف اپنی ضرورت کے تحت۔تعلیمی ادارے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہیں اور تعلیم کے اخلاقی فرض کو معاشی فرض میں بدل دیتے ہیں۔

پٹواری کسی بھی فرد کو قانون کے مطابق فرد نکال کر نہیں دیتا۔بلکہ مٹھی گرم ہونے کی ضرورت کے بعد ملتی ہے۔ اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو وہ خود ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ سرکاری بابو ڈیوٹی کو مشن سمجھ کر کرنے کے بجائے کمیشن پر دھیان دیتے ہیں۔

ڈاکٹرز مرض کو مارنے کے بجائے مریض کا معاشی قتل صرف اس لئے کرتا ہے کہ من پسند فارما کمپنیوں کے نسخوں کی ضرورت پوری ہو سکے اور نظریہ ضرورت کے تحت ڈاکٹروں کے جیبیں بھر سکیں۔

ایک صحافی اپنی آزادی کا استعمال بھی نظریہ ضرورت کے تحت کرتا ہے، کون سی خبر چلا کر ضرورت پوری ہو گی اور کونسا کام کروانے کے لئے کس کی ضرورت پڑے گی، سب صحافتی اصولوں کا سر قلم کرکے ہی مرضی کی قلم چلائی جاتی ہے۔

یہاں تو مزدور بھی نظریہ ضرورت سے دور نہیں، کام چوری حسب ضرورت پوری کرنا معمولی بات ہے۔۔ ایک کلرک فائل دباکر صرف اس لئے رکھتا ہے تاکہ سائل کو دباو میں لا کر اپنی ضرورت پوری کی جا سکے۔ ایک طالب علم نمبر لگوانے کے لئے نمبر ٹانگنے کی ضرورت پوری کررہا ہے۔ یہ نظریہ ضرورت ہی ہے جس کی وجہ سی ایک ملازم ترقی کے لئے باس کی چاپلوسی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔کیونکہ یہ ضرورت دو طرفہ ہوتی ، باس کو وفاداری پسند ہے اور ملازم کو دنیا داری۔

طاقت ور بھی اپنی طاقت کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اداروں پر مرضی چلانے کی فلم دہراتا ہے۔ جو دب جائیں انہیں ساتھ ملاتا ہے اور جو ڈٹ جائیں ان پر طاقت آزماتا ہے۔ نظریہ ضرورت کی وجہ سے پاکستان ایک کمپرومائزڈ سٹیٹ بن چکا ہے۔ کرپٹ سیاست دانوں کو اپنی سیاہ کاریوں پر این آر او مل جانا نظریہ ضرورت کا ہی شاخسانہ ہے۔

نظریہ ضرورت کے تحت کیس معاف ہوجانا ، بیرونی سازش کو دیسی سازش میں بدلنا یا حالات بدلنے پر خود بھی بد ل جانا۔ سب کی جڑیں نظریہ ضرورت سے ہی ملتی ہیں۔ یہ نظریہ ضرورت ہی ہے جس نے دور عمرانی میں اپنا نام بد ل کر یوٹرن رکھ دیا۔ ساز گار حالات میں کیابیان دینا ہے اور پھر الٹے پاوں کیسے مڑنا ہے ساری ٹریننگ نظریہ ضرورت نے ہی دی ہے۔

نظریہ ضرورت کے تحت پارٹی بدلنا،نظریہ ضرورت کے تحت بیان بدلنا، نظریہ ضرورت کے تحت افسر بدلنا اور نظریہ ضرورت کے تحت ملک کو ہی بدلنا تو عام ہے۔کیونکہ یہ نظریہ ضرورت ہی ہے جس نےپاکستان کو ضرورت کے مطابق چلنا سکھایا ہے۔

ضرورت انسان کو ہاتھ پھیلانےپرمجبور کر دیتی ہے،اور باہر کی دنیا بھی وطن عزیر کا بھی کچھ ایسا ہی تاثر لے رہی ہے۔ قرض میں ڈوبے وطن کو ڈالر کی ضرورت ہے تو نظریہ ضرورت آئی ایم ایف کے پاس لے جاتاہے، ورلڈ بینک اور دوست ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ عادت اگر پرانی ہو جائے تو نام وہی پڑ جاتا ہے۔

اور پاکستان کو لوگ ضرورت کے نام پر اور نظریہ ضرورت کے اقدام پر جس نام سے جانتی ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔نطریہ ضرورت نے ملک میں ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ آئین اور قانون کے نفاذ کی ضرورت کے علادہ ہر چیز کی ضرورت پیدا کی جاتی ہے، پھر نظریہ پیدا کیا جاتا ہے اور پھر اس نظریے کو سچ ثابت کرکے طاقت کا استعمال کر کے کہا جاتا ہے کہ ملک تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔

پچھہتر سال سے تاریخ او ر نازک دور سن سن کر یہ جملہ ہی اب تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے لیکن نظریہ ضرورت ابھی تک وقت کے تازہ پانیوں میں ہر سمت تیراکی کر رہا ہے۔جسٹس منیر کی عدالت سے نکلنے والا نظریہ ضرورت ملک کے کونے کونے میں سرایت کرچکا ہے۔

طاقتور کو اپنے مفاد کے لئے جب ضرورت پڑے نظریہ ضرورت دستیاب ہوتا ہے۔ یہ صرف عدالتوں میں ہی نہیں بلکہ شہر شہر، دفتر دفتر، دیہات، کاروبار، تعلیم، سیاست، سیاحت معاشرت ہر جگہ ضرورت کے تحت استعمال ہوتا ہے۔

انیس سو چون سے شروع ہوتے ہیں، جب جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا دروازہ کھولا ۔ یہ دروازہ کھلتے ہی طاقت کا در بھی کھل گیا اور آئین اور قانون کو اس دروازے سے باہر نکال دیا گیاعام لفظوں میں نظریہ ضرورت کو ضرورت کے تحت پیدا ہونے والا نظریہ کہہ سکتے ہیں جس کی پرورش نازک حالات کرتے ہیں اور پھر آئین اور قانون کو ایک طرف رکھ کر مفاد عامہ کا جواز بنا کر عدلیہ کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔

جسٹس منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کے حق میں فیصلے کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ آزادی کے باوجود پاکستان نظریہ ضرورت سے آزاد نہ ہوا۔ کیونکہ یہ رولنگ دی گئی تھی کہ گورنر جنرل چونکہ ملکہ برطانیہ کے نمائندے ہیں اس لئے وہ پوری اسمبلی کو گھر بھیج سکتے ہیں۔

اور یوں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے ریاست پاکستان پر جو غلامی اور نظریہ ضرورت کی چھاپ لگی وہ چھہتر سال بعد بھی ویسی کی ویسی لگ رہی ہے۔ نہ نظریہ ضرورت سے جان چھوٹی اور نہ ہی غلامی سے۔

جنرل ایوب بھی نظریہ ضرورت کے دروازےسے آئے اورمارشل لا لگا کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔انہیں ویلکم کرنے والے ایک بار پھر وہی جسٹس منیر تھے۔ جنھوں نے اپنے فیصلے میں مارشل لا کو جائز قرار دے کر لکھا کہ کامیاب فوجی انقلاب از خود ایک نیا نظام قانون ہوتا ہے۔ جج اور عدالتیں اس نئے قانون کی پابند ہوتی ہیں، لہٰذا اس کے خلاف عدالت کسی رٹ کی سماعت نہیں کرسکتی۔

نظریہ ضرورت کے کھیل ہی کھیل میں مشرقی بازو ٹوٹا تو چھ سال کے قومی صدمے کی ظملت میں پھر ضیا آگیا۔ یہاں بھی یہی ہوا، سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کو آئینی ضرورت قرار دینے ہوئے مارشل لاکو جائز قرار دے دیا پھر پرویز مشرف کا مارشل لا آیا۔

ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔اورعدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت یہی فیصلہ کیا کہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ ء کو جو صو رت حال پیش آئی، ۱۹۷۳ کا آئین اس کا کوئی حل پیش نہیں کر سکا تھا، ا س لیے مسلح افواج نے ماورائے آئین ملکی سیاسی امور میں جو مداخلت کی ،وہ ناگزیرتھی اور ااس طرح پی سی او ججز نے مارشل لا کو جائز قرار دے کر وہی تاریخ دہرائی۔

ڈکٹیٹروں کے غیر قانونی اقدام کو آئین کی چھتری دینے والے ججوں نے نظریہ ضرورت کو ہی قلم بنایا اور پھر جنرل باجوہ کی توسیع کے موقع پر نظریہ ضرورت کی جھلک انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں فریقوں میں دیکھی گئی

آخر میں چند سوال اور ان کے نامکمل جواب :

سوال: بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی ؟ جواب نظریہ ضرورت

سوال:شہریوں کو کیوں اٹھایا، جوا ب نظریہ ضرورت

سوا ل: آئین کیوں توڑا، جواب نظریہ ضرورت

سوال: میرٹ کے خلاف بھرتیاں کیوں کیں ؟ جواب نظریہ ضرورت

سوال: فلاں سیاستدانوں سے استعفے کیوں لئے؟ جواب نظریہ ضرورت

سب سے بڑا سوال:آخرنظریہ ضرورت کے پیچھے کیا؟جواب طاقت !

ٹی وی سیریز گیم آف تھرونز کامشہور ڈائیلاگ ہے، “طاقت طاقت ہوتی ہے ” ۔

اس لئے جب تک نظریہ ضرورت زندہ ہے،طاقت کو مزید طاقت ملتی رہے گی۔ طاقتور نظریہ ضرورت کا جواز بنا سکتا ہے لیکن ضرورت مند نہیں۔ آئین اور قانون کو زندہ رکھنے کے لئے نظریہ ضرورت کوہر شعبے میں دفن کرنا ضروری ہے، ورنہ بالا دستی اسی طاقتور طبقے کی قائم رہے گی جو اپنی ضرورت بھی اس قوم کے پیسے سے پوری کرتا ہے۔

Share With:
Rate This Article