28 April 2024

Homecolumnپنجاب آرٹس کونسل کا کلچرل ٹروپ اور فروٹ کی ٹوکریاں

پنجاب آرٹس کونسل کا کلچرل ٹروپ اور فروٹ کی ٹوکریاں

پنجاب آرٹس کونسل/ فائل فوٹو

پنجاب آرٹس کونسل کا کلچرل ٹروپ اور فروٹ کی ٹوکریاں

تحریر: رانا کامران

حکومتی حلقوں میں ابھی تک جوڑ توڑ جاری ہے مگر وقت کی رفتار ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے وقت تھم چکا ہے اور انہوں نے ایسا آب حیات پی لیا ہے جس کی گھونٹ کے لیے دارالخلافہ کے ارد گرد موجود تالاب کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ صحافت کرتے کرتے بِک جانا پاکستانی تاریخ میں کوئی نیا کام نہیں اور ویسے بھی اس ملک میں اوسط عمر اتنی ہے کہ کوئی بھی صحافت کی روح پر عمل کرتے کرتے بہت جلد اپنی روح کے پرواز کرنے کا قصہ پہلے ہی سن لیتا ہے۔

ہمارے ہاں جو بندربانٹ حالیہ ایوارڈ تقسیم کرتے ہوئے کی گئی وہ ہمارے معاشرے کی پوری عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں نوکر شاہی گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے کنٹرولڈ اینوائرمنٹ کی تجربہ گاہ میں کام کرتے کرتے پولیٹیکل انجینئرنگ میں ستارہ امتیاز حاصل کرنے کے قابل کب ہوئی اس کی کہانی عوامی تاریخ میں بیان کی جاتی رہے گی۔

بھانت بھانت کے محلولوں سے عصبی خلیے دھوتے دھوتے ہڈیاں تک دھو دی گئیں۔ شاباش ایسے ستارہ امتیاز پر۔ کاش یہ ستارہ عالمی افق پر بھی نمودار ہو کر پاکستان کو کوئی طرہ امتیاز بخشتا۔ پاکستان کی تاریخ بنیادی طور پر بکنے والوں اور نا بکنے والوں کے درمیان ان کرداروں پر کھڑی ہے جنہیں ہمارے ہاں متوازن آوازیں کہہ کر اکیسویں صدی میں داخل ہونے کا مژدہ سنایا گیا حتی کہ سرکس کے کسی مہان نٹ یا شعبدہ باز کی طرح یہ نظارہ بھی صرف اور صرف توجہ ہٹانے کے لیے پتلی گر سامراجی ہاتھ سامنے لاتا ہے۔

انہی سامراجی ہاتھوں کی بچی کچی شکل یہاں کی افسر شاہی ہے جو کہ معلوم موجودہ تاریخ میں اپنے اپنے حصے کا امتیازی ستارہ حاصل کر چکی ہے۔ پنجاب اور مرکز کی کھینچا تانی کی کئی شکلیں ابھی اپنے خدوخال سنوار نے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسی اثنا میں گھروں کے اندر کیمرے لگا کر یا زمین پر نباتاتی خیرات کے فوٹو شوٹ کروا کر عوام کو مسلسل ایک سیاسی سوپ دکھایا جا رہا ہے۔ یہاں کوئی صدا بلند کرے بھی تو کیوں کہ جہاں پی سی بی کی رکنیت خود صوبے کا سب سے بڑا افسر لے چکا ہو اور گاہے بگاہے چھوٹے موٹے تحفوں کی کہانی کا یہاں رواج عام ہے۔

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کوئی پھولوں کی سیج نہیں لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ وفاق سے ادھارے لیے گئے وفاقی افسران صوبائی حکومتوں کو یرغمال بنانے میں سیکنڈ تک نہیں لگاتے اور یہی کچھ مریم نواز کی حکومت کے ساتھ ہوتا ہوا لگ رہا ہے۔ وہی سیاست دان جو حکومت میں نا ہونے پر عوام کی دسترس میں آسانی سے آ جاتے ہیں وہ حکومت میں ہونے پر نوکر شاہی کے شعبدہ بازوں کی جانب سے شیشے میں اتار لیے جاتے ہیں۔

عظمیٰ بخاری دن رات ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی حکومت کی امیج بلڈنگ پر کام کر رہی ہیں مگر انہیں دراصل اپنی حکومت کی کپیسٹی بلڈنگ پر بھی کام کرنا پڑے گا اور اس کپیسٹی بلڈنگ سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ عقوبت خانوں کے احاطوں کو بڑا کر دیا جائے۔ یاد رکھیے یہی عقوبت خانے وقت کی گردش پر آپ کو بھی جکڑ سکتے ہیں۔ خیر حالیہ دنوں میں عظمیٰ بخاری نے بڑی تیزی سے چتر چالاک افسر شاہی کو نکیل ڈالنے کی جو کوشش عوامی فنکاروں کی شکایت پر کی ہے خدا کرے کہ وہ بیل منڈھے چڑھ جائے۔

پنجاب آرٹس کونسل کے بنانے والوں کے ساتھ جو چیرہ دستی بلال حیدر نے محکموں کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کی ہے اس کی نظیر پانچ دہائیوں میں نہیں ملتی۔ اپنے داخلی مسائل سے نبردآزما افسر شاہی کے پرزے داخلی طور پر ننگے ہو رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ یہاں کا کلچرل ٹروپ یہاں کی پہچان تھا۔ اوپن ائیر تھیٹر باغ جناح اور کلچرل ٹروپ پنجاب کی ثقافت کا ایک ورثہ تھے جہاں ذوالفقار علی بھٹو تو کبھی ضیا جیسے آمروں نے فنون سے لذت کشید کرنے کے لیے وہاں ماتھا ٹیکا مگر اوپن ائیر تھیٹر کی طرح کلچرل ٹروپ کو بھی نئے ترقیاتی منصوبے کے نام پر دھول چٹا دی گئی۔

پچیس سے تیس فنکاروں، سازندوں، گلوکاروں اور ماہر رقاصاؤں کے اس جھرمٹ کو ادارے کا حصہ بنانے کی بجائے انہیں ماہانہ اجرت پر رکھ لیا گیا۔ ہر دور میں اپنے ماضی کی البم اٹھائے یہ کلچرل ٹروپ زمانے اور افسر شاہی کی بھینٹ چڑھتا رہا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی چوکھٹ پر بڑھتی مہنگائی پر سر پیٹنا ہو تو چاہے سیکرٹری آفس کے دن رات چکر لگانا۔ فن اور فنکار سے تعلق رکھنے والے نے کہیں نا کہیں دست شفقت اس کلچرل ٹروپ پر رکھا مگر مجال ہے کہ سماجی طور پر ان اچھوت پیشہ وروں کو وہ عزت اور تکریم دی گئی ہو جس کے وہ حق دار ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے ادارے بنا کر انہوں نے خود پر افسر بھرتی کروائے یہ ایسے ہی تھا جیسے آج کل کے دور میں ایونٹ منیجر مگر جب ایونٹ منیجر بھیڑئیے بن جائیں تو پنجاب آرٹس کونسل کی موجودہ شکل وجود میں آتی ہے۔

سفارشوں پر چاہے نابینا پیانسٹ کی بھرتی ہو یا پھر سیکرٹری آفس سے بھرتی کروائے گئے لیگل کنسلٹنٹ یا نیوز لیٹر کے نام پر کسی کو بغیر آسامی کے ایڈیٹر بھرتی کرنا ہو۔ یہ سب معجزے پچھلی کئیر ٹیکر گورنمنٹ سے لے کر آج تک کی منتخب کروائی گئی حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ اخباروں کے تراشوں اور میڈیائی قاصدوں کے ذریعے جاری کروائی گئی خبروں سے سچ چھپنے والا نہیں۔ فروٹوں کی ٹوکریاں اور فراڈ کی حد تک بلند و بانگ دعوے کرنے والا نہ صرف غلام عباس سائیں ظہور کا تمسخر اڑا رہا ہے بلکہ آنے والے دنوں میں وہ فن سے وابستہ ہر اکائی کا مذاق اڑائے گا۔

عظمیٰ بخاری کے سامنے شاید یہ چھلاوا زبان حلق تک نہ لے کر جا سکے مگر فنکار دشمنی میں جو تجاوز اس نے کیا ہے وہ کوئی نام نہاد سابقہ وابستگی بھی اسے شاید پل صراط عبور کرنے میں مدد فراہم نہ کرے۔ عظمیٰ بخاری یہ چھلاوا اپنے افسر شاہی کے بونوں کے ساتھ آپ کو فتح کرنے نکلا ہے۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ آپ کے مفتوحہ ہوتے ہی ثقافت اور فنکار بھی اسیر کر لیے جائیں گے اور اس میں ہمیشہ کی طرح جعلی بھرتیاں کر کے اقربا پروری میں عزیز و اقارب کو نوازا جاتا رہے گا۔

اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ بطور لیگل کنسلٹنٹ اپنی نوکری کے لیے پنجاب آرٹس کونسل میں اپلائی کر کے دیکھئے۔ آپ اور مریم بی بی کی حکومت میں سانپ کو دودھ پلانا اور چھلاوں کو آکسیجن دینا دراصل ثقافت دشمنی سے عبارت ہو گا۔ فنکار کو گالی دے کر پھل پیش کرنے کا جو سیٹ اس بلال حیدر نے لگایا ہے اس سے اس کی جبلت عیاں ہے۔ گیلانی صاحب چپ کا روزہ توڑ دیں تو بہتر ہو گا وگرنہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی گماشتوں کی ثقافتی اداروں میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔ فنکار کو عزت دکھاوے کے طور پر دے کر تمغہ امتیاز لینے والوں کی فہرست میں ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد اس چھلاوے کا نام بھی ہو۔ مریم نواز اور عظمیٰ بخاری غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدارا ملک کی سیاسی و ثقافتی تاریخ کو مکروہ ہونے سے بچائیں۔

Share With:
Rate This Article