28 April 2024

Homecolumnعکس بے نظیر خاتون اول

عکس بے نظیر خاتون اول

عکس بے نظیر خاتون اول

عکس بے نظیر خاتون اول

تحریر: کاشف ندیم

حالیہ انتخابات میں جس دلجمعی شجاعت اور ولولے کے ساتھ صنف نازک ہونے کے باوجود بھی جوانمردی کا ثبوت دیا۔اپنے لیے نہیں بلکہ جماعت کے لیے ،بھائ کے لیے، والد کے لیے اور جماعت کے دیگر رہنماؤں کے لیے کامیاب مہم چلائی ۔اور یہ دلیل سچ ثابت کر دکھائی کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔یہ عورت بی بی شہید کا روپ تھا عکس تھا والد کے نام سے نسبت بھائی کے شانہ بشانہ کھڑی رہنے والی خطروں کو مول لینی والی آصفہ بھٹو زرداری ۔

کم عمری میں جوش خطابت اور انداز بیاں ولولہ انگیز مجمے کا لہو گرما دینے والا ہنر اور بے لوث سرگرم رہنی والی اس کم عمر بیٹی نے تاریخ رقم کر دی ہے ۔ان کے والد نے انہیں اس مقام پر اور مرتبے پر لا کھڑا کیا کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ آج حیات ہوتیں یہ مقام اور مرتبہ انکو ملتا اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے آصفہ بھٹو زرداری کو خاتون اول بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر آصف بھٹو زرداری باضابطہ طور پرآصفہ بھٹو کو خاتون اول ڈکلیئر کریں گے،آصفہ بھٹو کو خاتونِ اول کا پروٹوکول دیا جائےگا اور وہ پہلی خاتون اول ہونگی جو صدر کی بیٹی ہیں۔عام طور خاتون اول کا درجہ اہلیہ کودیا جاتا ہے۔خاتون اول اور مرد اول ایک خطاب ہے ،خاتون اول وزیر اعظم یا صدر مملکت کی بیوی کو کہا جاتا ہے اور مرد اول کسی بھی خاتون وزیر اعظم کے شوہر کو کہا جاتا ہے ۔

پاکستانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو جانے جارہا ہے کہ خاتون اول کا خطاب بیٹی کو ملنے جارہا ہے اس سے قبل ایسی مثال نہیں ملتی ۔ ہاں پاکستانی تاریخ میں یہ خطاب کب کس کو ملا اس میں پاکستان کی پہلی ،خاتون اول بیگم رعنا لیاقت علی خان تھیں۔ گورنر جنرل قائد اعظم کی پہلی اہلیہ ایمی بائی 1893 میں انتقال کر گئی تھیں۔ دوسری شریک حیات رتی جناح کا انتقال پاکستان بننے سے قبل ہو چکا تھا۔ البتہ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ان کی سیاسی رفیق کار کے طور پر موجود تھیں۔ ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے بعد ازاں ”مادر ملت“ کا خطاب عطا کیا گیا۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا۔ اور ان کی اہلیہ شاہ بانو پاکستان کی فرسٹ لیڈی بن گئیں۔ان کے بعد 1958 تک قلیل مدت کے لیے بننے والے پانچ وزرا اعظم میں سے صرف سر فیروز خان نون کی اہلیہ مسز وقار النسا نون ہی فرسٹ لیڈی کی حیثیت سے شہرت حاصل کر سکیں۔

1955 میں آخری گورنر جنرل اور 1956 میں پہلے صدر مملکت بننے والے اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اسکندر مرزا سیاسی اور سماجی طور پر متحرک خاتون اول رہیں۔جنرل ایوب خان کی اہلیہ با پردہ خاتون تھیں لہذا ان کے دور اقتدار میں خاتون اول کو میڈیا میں کوئی خاص اہمیت نہیں ملی۔

1961 میں امریکہ کے تاریخی دورے پر صدر ایوب خان کی صاحبزادی نسیم اورنگزیب ان کے ہمراہ تھیں۔ جن کی امریکی خاتون اول جیکولین کینیڈی کے ہمراہ تصاویر کو بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں کوریج دی گئی۔

ایوب خان کے بعد 1969 میں جنرل یحیٰ خان نے مارشل لا نافذ کیا۔ ان کی رنگین مزاجی کے قصے زبان زد عام رہے۔ ”جنرل رانی“ کے نام سے کئی داستانیں رقم ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی اہلیہ امیر بیگم سے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بھٹو کی دوسری اہلیہ نصرت اصفہانی ایرانی تھیں۔ اور ان کا تعلق ناہید اسکندر مرزا کے خاندان سے تھا۔

کہا جاتا ہے کہ نوجوان بھٹو اور نصرت کی ملاقات ناہید مرزا کے ہاں ایک تقریب میں ہوئی۔ 1951 میں شادی کے بعد سے آخری دم تک نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کی سیاست کا علم بلند رکھا۔ 1971 سے 1977 تک وہ پاکستان کی خاتون اول رہیں۔ مارشل لا کے بعد ضیا آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں مرتضی بھٹو کے قتل نے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ 2011 میں ان کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی حکومت نے انہیں ’مادر جمہوریت‘ کا خطاب دیا۔

صدر فضل الہی چوہدری کی اہلیہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ ان کے بعد جنرل ضیا الحق صدر بنے۔ جنرل ضیاء کی اہلیہ شفیقہ ضیا 1978 سے 1988 تک خاتون اول رہیں۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ صدر مملکت غلام اسحاق خان کی اہلیہ پردہ نشین رہیں لہذا اس دور میں خاتون اول کا عہدہ خالی رہا۔ البتہ آصف علی زرداری کو وزیر اعظم کے شوہر کی حیثیت سے ’مرد اول‘ کا غیر روایتی نام دیا گیا۔

نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز ان کے تینوں ادوار میں خاتون اول رہیں۔ 1999 میں مارشل لا کے بعد اپنے شوہر کی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے والی کلثوم نواز کا 11 ستمبر کو انتقال ہو گیا ۔صدر فاروق لغاری اور رفیق تارڑ کی بیگمات کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ صدر مشرف کے دور میں ان کی اہلیہ صہبا مشرف خاتون اول رہیں۔

ان کے پہلے دو وزرا اعظم جمالی اور شجاعت حسین کی بیگمات کا میڈیا پر کوئی خاص تذکرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ البتہ شوکت عزیز کی اہلیہ رخسانہ عزیز کو اس وقت میڈیا کے کچھ حلقوں نے ”خاتون دوم“ کا غیر رسمی خطاب دیا تھا۔وزیر اعظم گیلانی کی اہلیہ فوزیہ گیلانی 2008 سے 2012 تک خاتون اول رہیں۔ 2012 سے 2013 تک نصرت پرویز اشرف ملک کی خاتون اول رہیں۔ 2013 سے 2018 تک صدر رہنے والے ممنون حسین کی اہلیہ محمودہ ممنون حسین کبھی کبھار ہی سرکاری تقریبات میں نظر آئیں۔ اس دور میں بیگم کلثوم نواز اور ثمینہ شاہد خاقان عباسی خاتون اول کے طور پر نمایاں رہیں۔جمائیما گولڈ سمتھ اور ریحام خان کے بعد بشریٰ وٹو عمران خان کی تیسری اہلیہ ہیں۔

سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کبھی بھی خاتون اول کا کردار ادا نہیں کیا کیونکہ وہ ایک مشرقی روایات کی حامل اور پابند حجاب خاتون ہیں جنھیں عوامی تقریبات کے علاوہ وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ غیر ملکی دوروں میں کبھی نہیں دیکھا گیا البتہ وہ عمرے کی ادائیگی اور زیارت مقدسہ کے دوران ان کے ساتھ ہی تھیں۔

اب سب سے کم عمر فرسٹ لیڈی کا ریکارڈ قائم کرنے والی صدر مملکت کی بیٹی ہیں جو 3 فروری 1993 کو پیدا ہونیوالی آ صفہ بھٹو زرداری ہیں اور پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سیاسی گھرانے کا حصہ ہیں، وہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید اور پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔آصفہ بھٹو زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری کی چھوٹی بہن ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذو الفقار علی بھٹو اور ایرانی نژاد نصرت بھٹو کی نواسی اور شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی بھانجی ہیں۔

آصفہ بھٹو زرداری نے عام انتخابات سے قبل لاہور اورسندھ کے کئی شہروں میں انتخابی ریلیوں اور کارنر میٹنگز سے خطاب بھی کیا تھا.اور ان کے جوش جذبے سے لگتا تھا کہ انکا عزم پختہ اور یقین کامل ہے ۔ شاید اسکی وجہ یہ بھی تھی ان کو عوامی پذیرائی ملی تھی۔ آصفہ بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری کے سب سے زیادہ قریب رہی ہیں۔

آصف علی زرداری کے جیل کے دنوں میں اوراسیری کے دنوں میں عدالتوں میں پیشی کے وقت بھی آصفہ بھٹو زرداری اپنے والدآصف علی زرداری کی آغوش محبت میں ہمیشہ وہی نظر آتی تھیں۔حالیہ ایوان صدر میں ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں بھی وہ اپنے والد صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہمراہ ان کے بازو میں اپنا بازو ڈال کر چل رہی تھیں اور یہ مناظر دلگیر تھے جو ہر بیٹی اور ہر باپ کو سحر میں مبتلا کیے جارہے تھے ۔

آصفہ بھٹو زرداری اپنی والدہ اور سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو کی گود میں بھی اکثر وبیشتر نظر آتی تھیں اور اپنی فیملی میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ اپنے والد ،والدہ اور بہن بھائیوں کی لاڈلی بھی ہیں ۔

Share With:
Rate This Article
Tags