Homeتازہ ترینکرکٹ ورلڈ کپ کی بدترین میزبانی، انڈیا دنیا بھرمیں بدنام

کرکٹ ورلڈ کپ کی بدترین میزبانی، انڈیا دنیا بھرمیں بدنام

کرکٹ ورلڈ کپ کی بدترین میزبانی، انڈیا دنیا بھرمیں بدنام

کرکٹ ورلڈ کپ کی بدترین میزبانی، انڈیا دنیا بھرمیں بدنام

نئی دہلی: (سنو نیوز) کرکٹ ورلڈکپ 2023 ءکی بدترین میزبانی سے انڈیا دنیا بھر میں بدنام ہو چکا ہے۔ بھارتی قوم کی کم ظرفی بے نقاب ہو گئی ہے۔ عالمی میڈیا ، سابق بھارتی کرکٹرز اور خود بھارتی تجزیہ کار بھی اپنی قوم اور کھلاڑیوں کی اس کم ظرفی پر بول اٹھے ہیں۔

تفصیل کے مطابق کرکٹ ورلڈکپ 2023 ءکی بدترین میزبانی دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہے۔ فائنل میچ میں بھارتی شائقین نے حریف ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے تالیاں بجانا بھی گوارا نہ کیا۔ دوسرے ممالک کے شائقین موجود ہی نہیں تھے کیوں کہ ان کو ویزے ہی نہیں ملے تھے۔ فاتح آسٹریلین کھلاڑیوں کی فیملیز کو بھارتی انتہا پسند کرکٹ مداحوں نے ریپ کی دھمکیاں دیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ورلڈ کپ فائنل میں انڈیا کی سپرہٹ بیٹنگ فلاپ کیوں ہوئی؟

بھارتی تجزیہ کار بھی اس رویے پر بول اٹھے اور کہا کہ 1983 ء ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کپل دیو کو احمد آباد کیوں نہیں بلایا گیا؟ زرائع کے مطابق گراؤنڈ کی پیچ خراب تھی اور میچز کہیں اور منعقد ہونے تھے۔ دنیا میں کہیں بھی ورلڈکپ کا میچ کھیلا جاتا ہے تو ٹکٹس کی خریدوفروخت پہلے سے شروع کر دی جاتی ہے لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایسا نہیں کیا۔

بھارتی سابق کرکٹر گوتم گمبھیر نے خلیج ٹائمز میں لکھا کہ دوسری ٹیموں کے میچ میں کم شائقین نظر آئے۔ فاکس اسپورٹس آسٹریلیا نے کہا کہ بھارتی ٹیم کے کھلاڑی ایوارڈ کی تقریب تک نہیں رکے۔ پریس کانفرنس کے دوران پاور بریک ڈاؤن نے بھارتی ناقص انتظامات کی قلعی کھول دی۔

یہ بھی پڑھیں:

روہت شرما کا ٹی ٹونٹی کیریئر ختم؟

احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے ورلڈ کپ 2023ء کے فائنل میں ہندوستانیوں کے غیر مہذب رویے پر آسٹریلوی میڈیا پھٹ پڑا ہے۔ جبکہ ورلڈ کپ فائنل میں بھارت کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر چھٹی بار عالمی چیمپئن بننے والی آسٹریلوی ٹیم کی ہر طرف تعریف ہو رہی ہے۔ اس میچ کے ہیرو ٹریوس ہیڈ تھے جن کی سنچری کی بدولت آسٹریلیا نے بھارت کا تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کا خواب چکنا چور کردیا۔

آسٹریلوی میڈیا میں کپتان پیٹ کمنز کی سب سے زیادہ تعریف کی جا رہی ہے، جنہوں نے میچ سے قبل کہا تھا کہ وہ اسٹیڈیم میں موجود 1 لاکھ 30 ہزار بھارتی شائقین کو خاموش کروانا چاہیں گے۔ اتوار کو احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائی ہی خاموش نہیں رہے، ڈیلی ٹیلی گراف لکھتا ہے کہ ‘کیسے آسٹریلوی کھلاڑیوں نے 1.4 بلین ہندوستانیوں کو خاموش کروا کر ورلڈ کپ چھین لیا۔’

اخبار کے مطابق، کئی طرح سے یہ کپ بھارت کا ہی ہونے والا تھا۔ تکنیکی طور پر آسٹریلیا نے احمد آباد میں بھارت کو شکست دے کر ریکارڈ چھٹی بار ورلڈ کپ جیتا۔

دی کرانیکل نےکرکٹ ورلڈ کپ فائنل میں اسپورٹس مین شپ نہ دکھانے پر ہندوستانیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے، “چوٹ بہت گہری تھی۔ جس وقت آسٹریلوی ٹیم ٹرافی کے ساتھ جشن منا رہی تھی، ہندوستانی کھلاڑی غیر مہذب رویے اپنا رہے تھے”۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ فتح اس لیے بھی خاص تھی کیونکہ یہ میزبان ہندوستانی ٹیم کے خلاف جیتی گئی تھی جس نے اب تک کوئی میچ نہیں ہارا تھا۔

“اس بڑی کامیابی کا پیمانہ شاید آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز اور ان کی ٹیم نے محسوس نہیں کیا ہوگا کیونکہ انہیں 130,000 کی گنجائش والے خالی اسٹیڈیم میں ٹرافی سونپی گئی تھی۔”

“اس سے بھی زیادہ خاص بات یہ ہے کہ جس وقت ٹرافی میدان میں دی گئی، اس وقت ہندوستانی ٹیم کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔”

“کھیل کے دوران ہندوستانی کھلاڑیوں کی بے حسی کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ جذبات پر قابو نہ پا سکے ہوں گے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ رویہ کھیل کی روح کے خلاف نہیں تھا۔” دی کرانیکل لکھتا ہے کہ انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کپتان مائیکل وان نے کھل کر اس پر تنقید کی۔ اس نے پوسٹ کیا۔ تاہم بعد میں اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

ورلڈ کپ فائنل میں ہندوستانیوں کا غیر مہذب رویہ، آسٹریلوی میڈیا پھٹ پڑا

ہیرالڈ سن نے آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ کے تبصرے شائع کیے ہیں جس میں انہوں نے پچ کے حوالے سے ہندوستان کی حکمت عملی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ پونٹنگ نے کہا ہے کہ جو پچ تیار کی گئی تھی وہ بھارت کے لیے بیک فائر تھی۔ اخبار لکھتا ہے، ’’ورلڈ کپ کا فائنل اسی پچ پر کھیلا گیا تھا جس پر گذشتہ ماہ کھیلے گئے لیگ میچ میں ہندوستان نے پاکستان کے خلاف 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی‘‘۔

“پیٹ کمنز نے بھی ایک دن پہلے پچ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بالآخر گھاس کی پٹی نے آسٹریلیا کو ہدف کا بہتر تعاقب کرنے میں مدد کی۔” رکی پونٹنگ نے میچ کے بعد کہا، ’’یہ پچ میری توقع سے زیادہ سست تھی۔ لیکن ہر کسی نے پچ کے مطابق ڈھال لیا اور اچھی بائولنگ کی۔میچ کے بعد بھارتی کپتان روہت شرما نے ٹیم کی شکست کا ذمہ دار پچ کو نہیں ٹھہرایا۔ انہوںنے کہا، اب میں کوئی بہانہ نہیں بنانا چاہتا۔”

ساتھ ہی سابق انگلش کرکٹر مائیکل وان نے کہا کہ آسٹریلوی کھلاڑی ہندوستان سے بہتر پچ کو سمجھتے ہیں۔ حکمت عملی کے لحاظ سے وہ بہت ذہین ٹیم ہیں۔ دی ایج لکھتا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں سے بھرے اسٹیڈیم میں ویرات کوہلی کی وکٹ اکھڑنے کی آواز کے بعد صرف 11 آسٹریلوی کھلاڑیوں کی پرجوش آوازیں سنائی دیں۔

اخبار لکھتا ہے، “کوہلی کی وکٹ لے کر کمنز نے اپنی ٹیم کو فتح کے راستے پر ڈال دیا تھا اور پھر بقیہ ٹاسک کو ٹریوس ہیڈ اور مارنس لیبوشین کے درمیان 192 رنز کی شراکت سے مکمل کیا گیا”۔

“چاہے یہ کوہلی کی پچ سے رخصتی ہو، ہیڈ کی سنچری ہو یا فتح کا لمحہ، نریندر مودی اسٹیڈیم میں جو خاموشی چھائی ہوئی وہ کمنز اور ان کی ٹیم کے ارکان کے لیے سنہری تھی۔یہاں تک کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے کمنز کو ٹرافی دینے میں دیر کر دی تھی۔”

سنڈے مارننگ ہیرالڈ لکھتا ہے، ‘بھارت کے ورلڈ کپ جیتنے پر کمنز نے کہا – یہ کرکٹ کا عروج ہے۔’ اخبار کے مطابق کپتان پیٹ کمنز کا خیال ہے کہ آسٹریلیا کا بھارت کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتنا ان کی ٹیم کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سری لنکا کو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل گئی

کمنز نے کہا، “میرے خیال میں یہ بین الاقوامی کرکٹ کا عروج ہے، خاص طور پر ہندوستان میں ایسے ناظرین کے سامنے جیتنا۔ یہ ہم سب کے لیے بہت خاص سال رہا ہے۔ ہماری ٹیم ایشز اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ بھی جیت چکی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے اور زندگی بھر یاد رکھی جائے گی۔

کمنز کی تعریف کرتے ہوئے اخبار نے لکھا ہے، “کمنز ایک بہادر اور فیصلہ کن رہنما ثابت ہوئے ہیں، جنہوں نے آسٹریلوی ٹیم کی قیادت کی، جو اپنے پہلے دو میچ ہارنے کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے خطرے سے دوچار تھی، اگلے نو میں لگاتار فتح حاصل کی۔

کیرنز پوسٹ نے مچل اسٹارک کے اس بیان کو جگہ دی ہے جس میں انہوں نے ون ڈے کرکٹ کے ایک اصول کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مچل سٹارک کا خیال ہے کہ ون ڈے میچوں میں دو نئی گیندوں کے استعمال کے اصول کو تبدیل کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے کھیل بلے بازوں کے حق میں ہو گیا ہے۔

آسٹریلوی فاسٹ بائولر اسٹارک نے اس ورلڈ کپ کے آٹھ میچوں میں 43.40 کی اوسط اور 6.55 کی اکانومی ریٹ سے 10 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ ان کی بہترین کارکردگی نہیں ہے اور یہ 2015 ء اور 2019 ء کے ورلڈ کپ سے بھی بدتر ہے۔

اسٹارک نے کہا کہ انہوں نے اپنی صلاحیت کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، لیکن 25 اوورز کے بعد نئی گیند کا استعمال خاص طور پر دن کے وقت ریورس سوئنگ کو بہت مشکل بنا دیتا ہے۔ اسٹارک کو اس ورلڈ کپ میں دن کے وقت بائولنگ کرتے ہوئے پاور پلے میں ایک بھی وکٹ نہیں ملی، لیکن ہندوستان اور ہالینڈ کے خلاف رات کو بائولنگ کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں۔

Share With:
Rate This Article