Homeتازہ ترینایران جلد یا بدیر اسرائیل پر حملہ کر دے گا: جوبائیڈن

ایران جلد یا بدیر اسرائیل پر حملہ کر دے گا: جوبائیڈن

Joe Biden expects Iran to attack Israel 'sooner than later'

ایران جلد یا بدیر اسرائیل پر حملہ کر دے گا: جوبائیڈن

واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران جلد یا بدیر اسرائیل پر حملہ کر دے گا۔ خیال رہے کہ یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا گیا۔ ایران نے اس کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا تھا۔اس حملے میں ایک سینئر ایرانی کمانڈر سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور ان کے نائب بریگیڈیئر جنرل محمد ہادی حاجی رحیمی شامل ہیں۔

اس کے بعد سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایران جلد ہی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔اگرچہ اسرائیل نے یہ حملہ کرنے کا اعتراف نہیں کیا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ حملہ کیا ہے۔

امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل پر جلد ہی بڑا حملہ ہو سکتا ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔ جبکہ جو بائیڈن نے ایران سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ نہ کرے۔ہم اسرائیل کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔ ہم اسرائیل کے دفاع میں مدد کریں گے اور ایران کامیاب نہیں ہوگا۔

غزہ میں اسرائیل سے لڑنے والے فلسطینی گروپ حماس کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ، ایران بھی خطے میں اسرائیل پر حملہ کرنے والی متعدد پراکسی تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ تنظیم بھی اس میں شامل ہے۔جمعے کو حزب اللہ نے کہا کہ اس نے لبنان سے اسرائیل کی طرف درجنوں راکٹ داغے ہیں۔

اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کے ترجمان نے بتایا کہ تقریباً 40 میزائل اور دھماکا خیز ڈرون داغے گئے، جن میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ایک امریکی اہلکار نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ یہ حملہ اسرائیل پر کسی متوقع ایرانی حملے کے برعکس تھا۔ بی بی سی کے سیکیورٹی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ ایران جان بوجھ کر چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور امریکا اس حملے کا اندازہ لگاتے رہیں۔

یکم اپریل کے حملے کے بعد اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران لبنان اور شام میں خفیہ طور پر اس کی پراکسی تنظیموں کو ہتھیار فراہم کر رہا تھا، جب کہ دوسری جانب اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کے حوالے سے ایران میں مختلف آراء سامنے آتی رہی ہیں۔اس کیلئے دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل پر زور دار حملہ کیا جائے، جس کا وہ سخت جواب دے گا۔ دوسرا بڑا حملہ نہ کیا جائے لیکن اس سے ایران کا ایک کمزور امیج بنے گا۔

یہ وہ وقت ہے جب پورا مشرق وسطیٰ چوکنا ہے اور امریکا جیسا ملک دنیا کو بتا رہا ہے کہ حملہ ہو سکتا ہے۔ایران میں، عملیت پسند تحمل کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔لیکن ایران بڑے پیمانے پر جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی خلیج کے عرب ممالک کے اس کے پڑوسی ایسا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں کی حکومتوں نے ایران سے تحمل سے کام لینے کو کہا ہے۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث امریکا، برطانیہ، بھارت اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو اسرائیل کا سفر نہ کرنے کی ایڈوائزری جاری کی ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی نے اپنے شہریوں سے ایران چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیل میں سفارتی عملے اور ان کے اہل خانہ کو تل ابیب، یروشلم اور بیر شیبہ شہروں سے باہر سفر کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ دریں اثناء اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنی جنگی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سڈنی کے مال میں چاقو سے حملہ، 5 افراد ہلاک

ساتھ ہی کچھ اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ ایرانی حملے سے پریشان نہیں ہیں۔ یروشلم کے ایک بازار میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ڈینیئل کوسمین نے کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ ہم جنوب، شمال، مشرق اور مغرب میں دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ میں بڑے اعتماد سے کہتا ہوں کہ ہمیں کوئی خوف نہیں ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھو، لوگ باہر گھوم رہے ہیں۔”

حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے اپنے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ تین دن تک پانی، کھانے پینے کی اشیاء اور ضروری ادویات کا ذخیرہ کریں۔ اسرائیل نے اس کے لیے کوئی نئی ایڈوائزری جاری نہیں کی ہے۔تاہم اسرائیلی ریڈیو کے مطابق مقامی حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ ممکنہ ایرانی حملے کے لیے مزید عوامی پناہ گاہیں تیار کریں۔

پچھلے ہفتے، اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) نے اعلان کیا تھاکہ وہ جنگی یونٹوں میں خدمات انجام دینے والے تمام فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کر رہا ہے۔ اس سے ایک روز قبل فضائی دفاعی یونٹس کو مضبوط بنانے کے لیے ریزرو میں رکھے گئے دستوں کو بھی بلایا گیا تھا۔

کئی ممالک کے حکام ایران کو حملے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر ایران نے ایسا کیا تو اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جائے گی۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین، سعودی عرب اور ترکی کے وزرائے خارجہ سے بات کی ہے۔ بلنکن اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایران کو حملہ نہ کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جمعہ کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر سے ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ ایران کی جانب سے ممکنہ حملے کے خطرے سے دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔

یہ ذہن میں رہے کہ حماس نے اسرائیل میں داخل ہو کر 7 اکتوبر 2023 ءکو حملہ کیا تھا جس میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر اسرائیل کے شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر واپس غزہ پہنچا دیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 130 یرغمالی اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں اور کم از کم 34 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے اس حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے ان حملوں میں 33,600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے ساتھ جنگ ​​کے دوران، اسرائیل اپنی شمالی سرحدوں پر ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے ساتھ تقریباً روزانہ لڑتا رہا ہے، جب کہ عراق اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ ساتھ امریکی اہداف پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے علاوہ یمن کے بڑے حصے پر قابض حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر کے راستے اسرائیل جانے والے جہازوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے۔

Share With:
Rate This Article