Homeپاکستانپریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں 2 ججز کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں 2 ججز کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

dissenting note of Justice Shahid Waheed and Justice Ayesha Malik in the Supreme Court Practice and Procedure Act case

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں 2 ججز کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

اسلام آباد: (سنو نیوز) جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عائشہ ملک کا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

جسٹس شاہد وحید نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، بینچ کی اکثریت غلط نتیجہ پر پہنچی جو آئین کے مطابق درست نہیں، اختلافی نوٹ کا مقصد مستقبل میں اس ہونے والی غلطی کی اصلاح کرنا ہے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور اس کے امور پر قدغن لگانا ہے، آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار آئین میں دیا گیا ہے، آرٹیکل 175(2) پارلیمان کو کسی بھی قسم کا قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ آرٹیکل 175(2) عدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے ہے، کوئی بھی قانون آئین میں عدالت کو دیا گیا رولز بنانے کے حق پر حاوی نہیں ہوسکتا، پارلیمان کو بھی آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

عمران خان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے: امریکا

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے، حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بینچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔

جسٹس عائشہ ملک نے روسکوئے پاؤنڈ کے 1926 کے جملے سے اپنے فیصلے کا آغاز کیا۔ انہوں نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ روسکوئے پاؤنڈ نے کہا تھا اگر ہم چاہتے ہیں عدلیہ کچھ کرے تو اسے کرنے کی آزادی بھی دینا ہوگی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ روسکوئے پاؤنڈ کے مطابق عدلیہ کے کام میں قانون سازی کر کے رکاوٹ پیدا نہیں کی جا سکتی، سادہ قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق نہیں دیا جا سکتا۔

جسٹس عائشہ ملک نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے، آرٹیکل 191 کے تحت آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سپریم کورٹ کے آئینی اختیار کو ختم نہیں کر سکتا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم فل کورٹ ہی کر سکتی ہے، اصل سوال یہی ہے کہ فل کورٹ بنچ تشکیل کی صورت میں اپیل کا حق غیر موثر ہوجائے گا، فل کورٹ کی تشکیل سے کسی فریق کا اپیل کا حق ختم نہیں کیا جا سکتا، فل کورٹ کی تشکیل سے 184/3 میں اپیل کا حق دینے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔

Share With:
Rate This Article