Homeپاکستان2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی نہ ہوتا: چیف جسٹس پاکستان

2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی نہ ہوتا: چیف جسٹس پاکستان

A three-member bench headed by Chief Justice Qazi Faiz Isa heard the Faizabad dharna review case

2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی نہ ہوتا: چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد: (سنو نیوز) فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو سانحہ 9 مئی نہ ہوتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی ہے آپ نے وہ رپورٹ دیکھی ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہیں دیکھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ تب تک رپورٹ کا جائزہ لے لیں اس کیس کو آخر میں سنتے ہیں۔

وقفہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی عدالت میں موجود ہیں، عدالت کا رپورٹ سے متعلق کوئی سوال ہو تو کمیشن کے سربراہ سے پوچھا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آگے بھی پڑھیں پاکستان بنتا کیسے ہے اور تباہ کیسے کیا جاتا ہے، اس کمیشن نے ہمارا وقت کیوں ضائع کیا، اس کمیشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی، مجھے کہیں بھی اس کمیشن کی فائنڈنگ نظر نہیں آ رہی۔

یہ بھی پڑھیں

مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ معطل

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پیمرا ویسے تو پھرتی میں ہوتا ہے یہاں انھیں کچھ نظرنہیں آیا، کمیشن کے ممبرز کیا کر رہے ہیں کیا تقریر جھاڑ رہے ہیں، بھئی آپ کا کام تھا کہ ذمہ دار کا تعین کریں، آپ ایک طرف پارلیمان، عدالت کے پاور لے رہے ہیں، جو کام تھا وہ نہیں کر رہے بلکہ اِدھر اُدھر کی عجیب باتیں کر رہے ہیں، کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے ہیں وہ ذمہ دار نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے ماشا اللہ۔

کمیشن رپورٹ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی، پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، پاکستان کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آگ لگاؤ، مارو یہ حق بن گیا ہے، کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہیں، کمیشن والے بھی پولیس میں رہ چکے ہیں مگر لگتا ہے پولیس سے ہی کوئی خاص دشمنی تھی، لگتا ہے کمیشن والوں نے اپنے پرانے ساتھیوں سے کوئی سکور برابر کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کہیں بھی نہیں لکھ رہا مظاہرین نے غلط کیا، اس رپورٹ میں سنجیدگی تو نظر نہیں آ رہی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن کو فریم ورک کی سفارشات کا کہا تھا مگر وہ نہیں دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کمیشن کا ان پٹ کیا ہے ؟ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں، بہت شکریہ ، یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی ؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی بھی شاید نہ ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن نے لکھا نظر ثانی درخواستیں اتفاق سے سب نے دائر کیں اپنی وجوہات پر واپس لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماشا اللہ، یہ لوگ پتہ نہیں پولیس میں کیسے رہے، یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا تو نے چوری تو نہیں کی، درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے، کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظر ثانی درخواستیں دائر ہوئیں، آرکسٹرا کے کنڈکٹر ہوتے ہیں یہاں مگر کوئی کنڈکٹ نہیں کر رہا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی نے نظر ثانی کی منظوری دی ہوگی وکیل کیا ہوگا ساری پیپر ٹریل کدھر ہے ؟ یہ بہت ہی مایوس کن ہے کیوں ملک کا وقت ضائع کیا، کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا ؟ شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے، ان کو بلاتے ہوئے انہیں ڈر لگ رہا تھا، جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں، ناشتہ اور کھانے پہنچانے والوں کے تو بیان ہوئے مگر ٹی ایل پی کے نہیں، کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی شخصیات کو انفرادی طور پر ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے؟ رانا ثنا اللہ تو کوئی بیوروکریٹ نہیں تھے، ہو سکتا ہے کمیشن کو ان سے کوئی ذاتی دشمنی ہوگئی ہو۔

Share With:
Rate This Article