Homeپاکستانپاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر، ٹھوس اقدامات کی ضرورت

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر، ٹھوس اقدامات کی ضرورت

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر، ٹھوس اقدامات کی ضرورت

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر، ٹھوس اقدامات کی ضرورت

پشاور: (رپورٹ، فیضان حسین) موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقی چیلنج ہے، جو ہماری نسلوں کو پریشان کرتی رہے گی، اس کے اثرات سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔کیونکہ پاکستان متاثر ہونے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کل ( رقبہ ) 881،913 کی کل زمین کا تقریباً 41 ملین ہیکٹرز یا 51 فیصد حصہ صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے اور اس میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث کمی اور بے ترتیب ہوتی ہوئی بارشوں کے نتیجے میں اضافہ ہورہا ہے۔

اس بڑھتے ہوئے صحرا پذیری کو روکنے کے لیے شجرکاری ایک اہم موثر اور سستا طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے، جنگلی حیات کے تحفظ اوراس کو معدوم ہونے سے بچانے کیلئے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکموں کو مل کر خاطر خواہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک میں جنگلات کی کٹائی کو مکمل طور پر روک کر اور اس کے رقبے میں اضافہ کرکے معاشی و سماجی نقصانات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ جس کے تباہ کن نتائج اس کی معیشت، ماحولیات اور لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔ ملک پہلے ہی شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور دیگر انتہائی موسمی واقعات کا سامنا کر رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کا پاکستان کی معیشت پر خاصا اثر پڑ رہا ہے ۔ خاص طور پر زرعی شعبے میں جو ملک کی 40 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے۔ پاکستان بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بارش کے بدلتے ہوئے انداز فصلوں کی پیداوار کو متاثر کر رہے ہیں۔ جس سے خوراک کی قلت اور قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

گلیشیئر پگھلنے، برف باری میں کمی اور بخارات کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے ملک کو پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا بنیادی محرک گرین ہاؤسز ہیں، زمین کے اردگرد کچھ گیسیں گرین ہاؤس میں شیشے کی طرح کام کرتی ہیں، سورج کی گرمی کو جذب کرتی ہے اور اسے خلا میں واپس جانے سے روکتی ہیں اور گلوبل وارمنگ کا باعث بنتی ہیں۔

ان میں سے بہت سی گرین ہاؤس گیسیں قدرتی طور پر ہوتی ہیں، لیکن انسانی سرگرمیاں ان میں سے کچھ کی فضا میں ارتکاز کو بڑھا رہی ہیں۔ خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور فلورینیٹڈ گیسیں۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے گلوبل وارمنگ میں سب سے بڑا معاون ہے۔

کارخانوں میں سیمنٹ، لوہے، اسٹیل، الیکٹرانکس، پلاسٹک، کپڑے اور دیگر سامان جیسی چیزیں بنانے کے لیے توانائی پیدا کرنے کے لیے فوسل فیول جلانے سے گیسوں کا اخراج کرتی ہے۔ کان کنی اور دیگر صنعتی عمل بھی تعمیراتی صنعت کی طرح گیسیں خارج کرتے ہیں۔

مینوفیکچرنگ کے عمل میں استعمال ہونے والی مشینیں اکثر کوئلے، تیل یا گیس پر چلتی ہیں اور کچھ مواد، جیسے پلاسٹک، جیواشم ایندھن سے حاصل کردہ کیمیکل سے بنائے جاتے ہیں۔رین ہاؤس گیسز ہوا میں چھوڑنے کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس صدی کے آخر تک دنیا کی درجہ حرارت میں 2ڈگری سیلسیس تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں گرمی کی لہروں کی وجہ یہ تھی کہ جب درجہ حرارت کے ساتھ نمی مل جائے تو 40 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت 50 سے اوپر محسوس ہونے لگتا ہے جب کہ فضائی دباؤ کی شدت جب بڑھ جاتی ہے تو گرم ہواؤں کو زمین کی طرف دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جب کہ ایک سر سبز ملک کے لیے 25 سے 35 فیصد تک رقبے پر جنگلات چاہئیں، اس لیے پودے زیادہ سے زیادہ لگاکر جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی کا ذخیرہ کیا جاسکے۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور بدلتے ہوئے موسمی نمونوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ایسی پالیسیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے جو قابل تجدید توانائی کے ذرایع جیسے شمسی اور ہوا کی توانائی کو فروغ دیں۔

Share With:
Rate This Article