Homeتازہ ترینپاکستان میں عید کا چاند دیکھنے کا معاملہ اتنا پیچیدہ کیوں ہے؟

پاکستان میں عید کا چاند دیکھنے کا معاملہ اتنا پیچیدہ کیوں ہے؟

Eid Hilal

پاکستان میں عید کا چاند دیکھنے کا معاملہ اتنا پیچیدہ کیوں ہے؟

لاہور:(ویب ڈیسک) پاکستان میں اس سال سعودی عرب اور دیگر ممالک کی طرح ایک ہی روز منائی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں عید کاچاند دیکھنے کا معاملہ اتنا پیچیدہ کیوں ہے؟

اسلام چاند کے مراحل کی بنیاد پر” قمری کیلنڈر سے آگے بڑھتا ہے۔ رمضان اسلامی سال کا 9اں مہینہ ہے۔ اسلام کے مقدس مہینے رمضان کا اختتام عید الفطر پر ہوتا ہے۔ لیکن اتنے بڑے اسلامی تہوار کیلئے یہ طے کرنا کہ یہ کب ہوگا انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔رمضان المبارک کا اختتام قریب آتا ہے تو پوری دنیا کے مسلمان شوال کا چاند دیکھنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔

گذشتہ روزمرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی عبدالخبیر آزاد نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان کے اکثر مقامات پر مطلع صاف تھا۔ شوال کا چاند نظر آنے کی شہادتیں مختلف مقامات سے موصول ہوئیں جن میں سکردو، فیصل آباد، دیر اور کراچی سمیت دیگر علاقےشامل تھے۔

اس سے ایک روزقبل پیر کوسعودی عرب میں اعلان کیا گیا کہ وہاں شوال کا چاند نظر نہیں آیا ،اس بار پورے 30 روزے ہوں گے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ روایتی طور پاکستان سمیت متعدد ایشیائی ملک خصوصی طور پربرصغیر کے ممالک سعودی عرب سے اگلے روز عید مناتے ہیں۔

پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ ملائیشیا، آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات آج ہی عید منائی جا رہی ہے۔لیکن انڈیا اور بنگلا دیش میں شوال کا چاند نظر نہیں آیا ، وہاں عید الفطر 11 اپریل کو منائی جائے گی۔

ایمن خواجہ اس کی وضاحت کرتی ہیں۔

عید کی تاریخیں دنیا بھر میں کبھی ایک جیسی نہیں ہوتیں، زیادہ تر یہ ایک دن کے وقفے سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب میں حکام جو ایک سنی اکثریتی ملک ہے رمضان کے آغاز اور اختتام کا اعلان عوامی کی شہادتوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس کے بعد بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمان بھی اس کی پیروی کرتے ہیں۔

لیکن ایران، جس میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں صرف سرکاری اہلکار چاند دیکھنے کے بعد عید کا اعلان کرتے ہیں۔ عراق، جہاں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت اور سنی اقلیت ہے، ان دونوں کا مرکب استعمال کرتا ہے۔ آیت اللہ علی السیستانی کے اعلان کے بعد شیعہ، جبکہ سنی اقلیت اپنے ہی علما کی پیروی کرتے ہوئے عید مناتے ہیں۔

جبکہ ترکی ایک ایسا ملک جو سرکاری طور پر سیکولر ہے، وہاں رمضان کے آغاز اور اختتام کا فیصلہ کرنے کے لیے فلکیاتی حساب کتاب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یورپ میں زیادہ تر مسلمان اپنی اپنی برادریوں کے رہنماؤں کے اعلانات کا انتظار کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا انحصار دیگر مسلم ممالک میں چاند نظر آنے پر ہو سکتا ہے۔

بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق ہر سال قمری کیلنڈر کا ہر مہینہ پچھلے شمسی سال کے مقابلے تقریبا 11 دن پہلے آ جاتا ہے۔ قمری کیلنڈر پر عمل کرنا مسلمانوں کیلئے بہت اہم ہے اور اس کا اس بات پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے کہ لوگ رمضان کیسے گزارتے ہیں۔

مسلمان ماہ رمضان میں سر سے غروبِ آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں اور اس دوران کھانے اور پینے سے پرہیز کرتے ہیں۔اگر رمضان شمسی کیلنڈر پر ہوتا تو اس مہینے کے موسم ہمیشہ ایک جیسے رہتے اور دنیا کے ایک حصّے میں مسلمان ہمیشہ گرمیوں میں روزے رکھتے جہاں دن بڑے ہوتے ہیں اور دوسرے حصے میں ہمیشہ سردیوں میں ہوتے جہاں دن چھوٹے ہوتے ہیں۔

قمری کیلنڈر پر چلنے کی وجہ سے تمام مسلمان اپنی زندگی کے 33 برسوں میں مختلف موسموں میں روزے رکھ پاتے ہیں اس لیے انھیں طویل اور کم وقت سبھی طرح روزوں کا تجربہ ہو جاتا ہے۔عید الفطر کا تہوار دسویں مہینے ’شوال‘ کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے۔ لیکن اس پر بھی بحث ہوتی ہے کہ یہ ہوگا کب۔

اگرچہ کچھ لوگ ایک طے شدہ قمری کیلنڈر پر عمل کرتے ہیں اور کچھ نئے چاند کی آمد کا اعلان کرنے کے لیے فلکیاتی مشاہدات کا استعمال کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت آسمان میں ہلال چاند نظر آنے کے بعد ہی ایک نیا مہینہ شروع کرتی ہے۔

یہ عام طور پر مذہبی حکام کے ذریعہ کی جانب سے کیا جاتا ہے، نہ کہ سبھی لوگ خود آسمان میں تلاش کرتے ہیں۔مسلمانوں کو عید سے ایک رات قبل تک اس کی تصدیق کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ قمری مہینے 29 یا 30 دن طویل ہوسکتے ہیں۔ اور یہ اس پر منحصر ہے کہ پہلی کا چاند یعنی ہلال کب دکھائی دیتا ہے۔

دنیا بھر میں لوگ غروبِ آفتاب کے بعد آسمان میں چاند تلاش کریں گے، مہینے کی 29ویں تاریخ کو اس ہلال کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔اگر انھیں نیا چاند نظر آتا ہے تو اگلے دن عید کی تقریبات ہوں گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے، تو 30 دن کا مہینہ مکمل کرنے کے لیے ایک اور دن کا روزہ رکھا جائے گا۔

بشکریہ: بی بی سی

Share With:
Rate This Article