عوامی دباؤ پر نیپال کے وزیر اعظم مستعفیٰ
نیپال اس وقت شدید سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے جہاں عوامی احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
استعفیٰ ملک بھر میں سوشل میڈیا پر حکومتی پابندی کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک اور بڑھتی بدامنی کے بعد سامنے آیا/ فائل فوٹو
کھٹمنڈو: (ویب ڈیسک) نیپال اس وقت شدید سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے جہاں عوامی احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق یہ استعفیٰ ملک بھر میں سوشل میڈیا پر حکومتی پابندی کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک اور بڑھتی بدامنی کے بعد سامنے آیا۔ چند روز قبل حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اچانک پابندی عائد کی گئی تھی، جس پر عوامی غصہ پھوٹ پڑا۔ مظاہرین نے دارالحکومت کھٹمنڈو سمیت مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ عوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے الزامات نے سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم کو ایک سال قید کی سزا

سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے قریب ترین ساتھیوں نے انہیں استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا کیونکہ حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ احتجاج کے دوران نہ صرف تین وزراء نے اپنے عہدے چھوڑے بلکہ وزیر داخلہ سمیت چار وزرا بھی گزشتہ روز مستعفی ہوگئے تھے۔ یہ صورتحال اولی کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوئی اور انہوں نے وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
کھٹمنڈو میں کرفیو کے باوجود مظاہرے جاری رہے۔ مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر ٹائر جلائے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ حالات اس قدر سنگین ہوگئے کہ کھٹمنڈو ایئرپورٹ کو جزوی طور پر بند کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ ہاؤس، صدر کی رہائش گاہ اور وزیر اعظم کے دفتر کے اطراف میں سخت حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران نیپال کے سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ مظاہرین نے کھلے عام موجودہ حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے فوری طور پر وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ عوامی دباؤ اور حکومتی صفوں میں بغاوت کے نتیجے میں آخر کار اولی کو مستعفی ہونا پڑا۔