چکوال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں قیدی کے اہلخانہ کو ملاقات کی اجازت نہ ملنا افسوسناک ہے، میرا تو سوال یہ بھی ہے عمران خان گرفتار کیوں ہیں؟ میں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری اور ملاقاتیں نہ ہونے کے حق میں نہیں ہوں۔
آئین میں ترامیم سے متعلق بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جتنی تیزی سے آئین میں ترامیم ہو رہی ہیں اس سے آئین کی اہمیت مجروح ہو رہی ہے، حالانکہ آئین ایک میثاق ملی ہے جس پر سب کا اتفاق ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم کے موقع پر کم از کم ایک ماہ اور ایک ہفتے تک مشاورت کا عمل جاری رہا ، بات چیت چلتی رہی اور مفاہمت کے ساتھ ترمیم ایوان میں پیش کی گئی لیکن ستائیسویں ترمیم جبراً دو تہائی اکثریت بنا کر طاقت کے زور پر پاس کروائی گئی، ایسے ہی چلتا رہا تو یہ آئین متنازع بن جائے گا، عوام اسے تسلیم نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی بہنوں کو اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دینا مہنگا پڑ گیا
سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو قانون سازی کی ہے، مثلاً اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی، گھریلو تشدد اور جنس کی تبدیلی جیسے معاملات یہ سب قرآن و سنت کے منافی ہیں، قانون سازی کے دوران جو نوٹس دیئے گئے ان میں اقوامِ متحدہ کے منشور اور ان کے اغراض و مقاصد کی پیروی نظر آتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے تو آئین کا حلف اٹھایا ہے اور اس آئین میں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا حلف شامل ہے، ایسی غیر اسلامی قانون سازی ہمارے لیے ناقابل قبول ہے، ہم 22 دسمبر کو کراچی میں تمام دینی جماعتوں، مختلف مکاتبِ فکر اور مدارس کی ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں جس میں اس حوالے سے ایک حتمی اور متفقہ رائے قائم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس حقیقی مینڈیٹ ہی موجود نہیں یہ جعلی مینڈیٹ کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں، جعلی مینڈیٹ کے باوجود بھی حکومت صرف مسلم لیگ (ن) کی ہے پیپلز پارٹی صرف حکومت کو کندھا دیے ہوئے ہے ، یعنی یہ جعلی اکثریت نہیں بلکہ جعلی اقلیت کی حکومت ہے۔