
تفصیلات کے مطابق سرمایہ کار ایسے حالات میں ہمیشہ محفوظ اثاثوں کی تلاش کرتے ہیں اور صدیوں سے سونا ان کے لیے سب سے موزوں آپشن سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونے کی منڈی تیزی کا سامنا کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی نظام اس وقت سخت دباؤ کا شکار ہے۔ آسٹریلیا میں کے سی ایم ٹریڈ کے چیف مارکیٹ اینالسٹ ٹم واٹرر کے مطابق ’’مالیاتی منڈیاں غیر یقینی کو پسند نہیں کرتیں، اور جب حالات غیر مستحکم ہوں تو سرمایہ کاروں کے لیے سونا سب سے محفوظ سرمایہ کاری ثابت ہوتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں دنیا بھر کے سرمایہ کار بڑی تعداد میں سونے کی خریداری کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک مارکیٹ تاریخ کی نئی بلندیوں کو چھو گئی
گزشتہ دو برسوں کے دوران سونے کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے کئی بڑے عوامل ہیں جن میں یوکرین جنگ، غزہ کی صورتحال اور امریکہ کی غیر یقینی تجارتی پالیسیوں کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت تجارتی حکمت عملی نے عالمی معیشت کو مزید دباؤ میں ڈالا، جس کے بعد سرمایہ کاروں نے کثیر سرمایہ سونے میں منتقل کیا۔
ماہرین کے مطابق سونا نہ صرف اپنی مستحکم حیثیت کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو بھاتا ہے بلکہ وہ لوگ بھی اسے ترجیح دیتے ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور مالیاتی اداروں پر مکمل اعتماد نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈالر اور سونے کے درمیان الٹا تعلق بھی اہمیت رکھتا ہے۔ جب ڈالر کی قدر کمزور ہوتی ہے تو سونے کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، اور جب ڈالر مضبوط ہو تو سونے کی طلب کم ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی اس عالمی صورتحال کے اثرات براہِ راست دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مقامی مارکیٹ میں ایک تولہ سونے کی قیمت 3 لاکھ 84 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے، جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی غیر یقینی اور تنازعات اسی رفتار سے جاری رہے تو آنے والے دنوں میں قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔