حماس ٹرمپ کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر رضا مند
فلسطینی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر بڑی حد تک رضامندی ظاہر کر دی
فلسطینی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر بڑی حد تک رضامندی ظاہر کی/ فائل فوٹو
غزہ: (ویب ڈیسک) فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر بڑی حد تک رضامندی ظاہر کر دی۔

حماس کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تنظیم امریکی صدر، عرب ممالک اور اسلامی دنیا کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اعلامیے کے مطابق حماس اس شرط پر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر تیار ہے کہ میدانِ عمل میں تبادلے کے لیے درکار سکیورٹی اور انسانی بنیادوں پر حالات سازگار ہوں۔ اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ "تمام اسرائیلی قیدی، خواہ زندہ ہوں یا مردہ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کردہ شرائط کے مطابق رہا کیے جائیں گے۔"

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا حماس کو غزہ معاہدے پر دستخط کیلئے 5 اکتوبر تک کا الٹی میٹم

حماس نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے عمل کے لیے مناسب فضا اور حفاظتی انتظامات ضروری ہیں۔ تنظیم نے مزید کہا کہ وہ ثالثی ممالک کے ذریعے فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ انسانی بنیادوں پر قیدیوں کی رہائی اور امن کے قیام کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ تاہم، حماس نے ایک بار پھر زور دیا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی قبضے اور فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ "غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور مستقل جنگ بندی کے بغیر امن ممکن نہیں۔"
رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبہ فوری جنگ بندی، اور 72 گھنٹوں کے اندر حماس کی تحویل میں موجود تمام اسرائیلی مغویوں کی رہائی پر مشتمل ہے، جس کے بدلے میں اسرائیل سے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق فی الحال حماس کی قید میں 48 اسرائیلی مغوی موجود ہیں جن میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ حماس کی آمادگی ایک "امید کی کرن" ہے اور اب اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے تاکہ قیدیوں کی بحفاظت رہائی ممکن بنائی جا سکے۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ ان کی کوشش صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ہے۔
دوسری جانب قطر اور مصر نے حماس کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے خطے میں امن کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔