
فرانس ایک بار پھر بڑے سیاسی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ صدر ایمانویل میکرون کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اب وہ جلد نیا وزیر اعظم اور کابینہ لانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ تاہم صدر نے استعفیٰ کا نہیں سوچا اور نا ہی فوری انتخابات کی تجویز ماننے پر تیار ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی 577 اراکین پر مشتمل ہے اور وہ تین گروہوں پر تقسیم ہے۔ بائیں جانب کی جماعتیں ،مرکز نیز دائیں جانب کے ساتھ اتحاد اور قوم پرست دائیں جانب کی جماعت ۔اس تقسیم کی وجہ سے اسمبلی میں فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
میکرون کی حمایت زیادہ تر مرکز یا دائیں جانب کی جماعت کے راہنماؤں کو حاصل رہی ہے اس بار بھی جن ناموں پر غور کیا جا رہا ہے ان میں وزیر دفاع سیاستین لیکورنو اور وزیر معشیت ایرک لومبارڈ شامل ہیں ۔
اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ فوری انتخابات کروائے جائے اگر انتخابات کروائے جاتے ہیں تو ایک سروے کے مطابق دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلے اور اس کے اتحادی سب سے آگے رہیں گے اور میکرون کا اتحاد بہت پیچھے رہ جائے گے ۔
یہ بھی پڑھیں: عوامی دباؤ پر نیپال کے وزیر اعظم مستعفیٰ
کچھ لوگ صدر کے استعفے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں مگر میکرون کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مدت 2027 تک مکمل کریں گے دوسری جانب عوامی غصہ بڑھ رہا ہے ۔ بلوکن تو نامی گروہ نے پورے ملک میں احتجاج کی کال دی ہے اور مزدوروں نے 18 ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ فرانس کا سیاسی بحران ابھی ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا اور آنے والے دن مزید مشکل ہوسکتے ہیں۔



