پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی فضائی صنعت ڈوبنے لگی
 پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
فائل فوٹو
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورتحال کے باعث پاکستانی فضائی حدود کی بندش کو 13 روز گزر چکے ہیں جس کے نتیجے میں بھارتی ایئرلائنز کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے اب تک 1350 بھارتی پروازیں متاثر ہو چکی ہیں جبکہ نقصان کی مجموعی مالیت 275 کروڑ بھارتی روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ایئرلائنز جیسے ایئر انڈیا، انڈیگو، اسپائس جیٹ، آکاسا ایئر اور ایئر انڈیا ایکسپریس کی پروازوں کو متبادل طویل راستے اختیار کرنا پڑ رہے ہیں جن میں بحیرہ عرب کے ذریعے آدھے بھارت کا فضائی سفر شامل ہے۔

ان طویل روٹس کی وجہ سے فیول کی کھپت، فلائٹ عملے کی تبدیلی اور دیگر آپریشنل اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، بھارت سے امریکا، یورپ اور برطانیہ جانے والی پروازوں کو ڈائیورٹ کرنے سے ایئرلائنز کو ڈبل خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض پروازوں کو یورپ میں لینڈنگ اور ری فیولنگ کرنی پڑ رہی ہے جس سے یومیہ کروڑوں روپے صرف ہوائی اڈوں کے چارجز کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر امریکا جانے والی پروازوں کے عملے کو یورپی ہوائی اڈوں پر تبدیل کرنا پڑ رہا ہے جو ایک اضافی لاگت کا باعث بن رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے انڈیگو ایئر کی تاشقند اور الماتی کے لیے پروازیں تاحال بند ہیں جبکہ دہلی، ممبئی، احمد آباد، امرتسر اور بنگلور سے بین الاقوامی سفر کرنے والے مسافروں کو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ شدید سفری مشکلات کا بھی سامنا ہے۔

صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بہت سی پروازیں منسوخ ہونے کے باوجود متاثرہ مسافروں کو بھارتی ایئرلائنز کی جانب سے ریفنڈ ابھی تک نہیں مل سکا، اس بندش نے نہ صرف ایئرلائنز بلکہ عام مسافروں کی زندگیوں پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

علاوہ ازیں پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کے دورانیے میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس میں کچھ بین الاقوامی روٹس کا وقت 4 سے 10 گھنٹے تک بڑھ چکا ہے۔

پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے پیدا ہونے والا یہ بحران بھارت کی ہوا بازی صنعت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے، جس کا اثر آئندہ مہینوں تک جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔