برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی منصوبوں سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کینیڈا اور میکسیکو سے تیل کی درآمدات کو بھی ٹیرف سے استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔ اگرچہ امریکی صنعتوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف صارفین بلکہ صنعت اور قومی سلامتی کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے، تاہم ٹرمپ کی انتظامیہ کا مقصد تجارتی بیلنس کو بہتر بنانا ہے۔
امریکی توانائی کے انتظامی ادارے کے مطابق، کینیڈا اور میکسیکو امریکا کے خام تیل کے بڑے سپلائرز ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، امریکا کینیڈا سے اپنی خام تیل کی 52 فیصد اور میکسیکو سے 11 فیصد درآمد کرتا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران، کینیڈا کی سمندر کے راستے خام تیل کی یومیہ برآمدات میں 65 فیصد کا اضافہ ہوا، جو کہ پانچ لاکھ 30 ہزار بیرل تک پہنچ چکی ہیں۔ اس اضافے کے پیچھے کینیڈا کی پہاڑوں میں گزرنے والی پائپ لائن کی توسیع ہے، جس کی بدولت امریکا اور ایشیا دونوں کو تیل کی شپمنٹس میں اضافہ ہوا۔
گولڈ مین ساش کے گلوبل کموڈٹیز کے سربراہ ڈان اسٹرووین کا کہنا ہے کہ اگر کینیڈا سے برآمد ہونے والا تیل امریکہ کو نہ بھیجا گیا تو کینیڈا کے تیل پیدا کرنے والوں کو مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کینیڈا اور میکسیکو زیادہ تر ہائی سلفر کروڈ آئل برآمد کرتے ہیں جو امریکا اور ایشیا کی ریفائنریز میں پروسیس کیا جا سکتا ہے۔
سنگاپور کے ایک تاجر نے اس حوالے سے کہا کہ امریکی حکام کو اس صورتِ حال میں فیصلہ کرنا ہوگا، کیونکہ سعودی عرب بھی محدود مقدار میں ہیوی گریڈ خام تیل پیدا کر سکتا ہے۔ امریکا میں بعض ریفائنریز صرف پائپ لائن کے ذریعے تیل وصول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جس کے سبب ان کے لیے دیگر ذرائع سے تیل کی درآمد مشکل ہو سکتی ہے۔
سپین کی ریفائنریز میکسیکو کے تیل کو خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، تاہم ایشیا میں خاص طور پر چین اور بھارت میں، کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد کیے جانے والے تیل کی طلب میں اضافہ متوقع ہے۔ یہ ممالک امریکی ٹیرف کے نفاذ کے بعد زیادہ تیل خرید سکتے ہیں۔
توانائی کے تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ یورپ کی ریفائنریز کینیڈا اور میکسیکو کے سستے خام تیل سے کم فائدہ اٹھا سکیں گی لیکن ایشیا میں ان دونوں ممالک کا تیل امریکی مارکیٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش ثابت ہو گا۔