انڈین جج کے مسلم اکثریتی علاقے کو "پاکستان" کہنے پر تنازع
Controversy over Indian judge calling Muslim-majority region "Pakistan"
نئی دہلی:(ویب ڈیسک)بھارت کے ریاست کرناٹکا میں ایک ہائیکورٹ جج کے متنازع ریمارکس نے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔
 
جج وداویساچار سری شنندا نے ایک سماعت کے دوران بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو "پاکستان" کہہ کر تنازع کھڑا کر دیا، جس پر سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
 
واقعہ اس وقت پیش آیا جب کرناٹکا ہائیکورٹ میں ایک مالک مکان اور کرائے دار کے درمیان تنازع پر سماعت جاری تھی۔ 
 
سماعت کے دوران جج کے مسلم اکثریتی علاقے سے متعلق دیے گئے ریمارکس نے تنازع کو جنم دیا، جس سے بھارت کی عدالتی روایات اور عدالتی غیرجانبداری پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔
 
جج کے اس بیان کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جج کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کیا اور ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے اس معاملے پر مکمل رپورٹ طلب کر لی ہے۔
 
 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے جج کے بیان پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے وقار اور غیرجانبداری کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا عدالتی کارروائی کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لیے ججوں کو اپنے ریمارکس دیتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
 
بھارتی سپریم کورٹ کے اس نوٹس کے بعد عدالتی حلقوں اور قانونی ماہرین کی طرف سے عدالتی ضابطہ اخلاق پر بحث شروع ہو گئی ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی جج کے بیان کے خلاف مذمتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ 
 
یہ معاملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عدلیہ کے ریمارکس معاشرتی اور سیاسی طور پر کتنے حساس ہو سکتے ہیں اور ایسے بیانات سے عوامی جذبات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
 
عدالتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات عدالتی غیرجانبداری پر سوال اٹھاتے ہیں اور عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ 
 
سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ اس معاملے میں جلد کوئی مناسب کارروائی کی جائے گی تاکہ عدلیہ کا وقار اور عوامی اعتماد برقرار رہ سکے۔