کینیا میں دس لاکھ کوؤں کو زہر دے کر مارنے کا پلان
Image
نیروبی:(ویب ڈیسک)ایلین انویڈنگ برڈزبھلے ہی ہالی ووڈ کی ہارر فلم کا ٹائٹل لگ رہا ہو، لیکن یہ کینیا کے ساحل کے لوگوں کے لیے ایک ناقابل تردید حقیقت بن گیا ہے۔
 
اس ملک کے حکام نے بھارتی کوؤں کی وجہ سے ہونے والی پریشانی کے باعث ان میں سے دس لاکھ کو تلف کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
 
ان پرندوں نے الفریڈ ہچکاک کی ڈراؤنی فلم دی برڈز کی طرح انسانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ کئی دہائیوں سے بڑے پیمانے پر انتشار پھیلایا ہے۔ 
 
وہ جنگلی حیات پر حملہ کرتے ہیں، سیاحتی علاقوں پر ان کی بھرمار ہےاور پولٹری فارمز پر حملہ کرتے ہیں۔
 
اب کینیا کے حکام نے واٹامو اور مالندی کے شہروں میں تقریباً دس لاکھ کوؤں کو مارنے کے لیے اس نسل کو زہر دینے کا عمل شروع کر دیا ہے اور پرندوں کا ایک خاص زہر استعمال کر رہے ہیں جسے ’اسٹارلیسائڈ‘ کہا جاتا ہے۔
 
 زہر دینے کا مقصد کوؤں کو دارالحکومت نیروبی کی طرف بڑھنے سے روکنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ زہر دیگر پرندوں اور جانوروں کے لیے خطرناک نہیں ہے۔
 
یہ پرندے جنہیں کینیا میں "کونگورو" یا "کورابو" کہا جاتا ہے، اصل میں ہندوستان اور ایشیا ءکے دیگر حصوں سے ہیں اور اکثر تجارتی جہازوں پر سفر کرکے دوسرے خطوں میں پھیل چکے ہیں۔ 
 
یہ حملہ آور پرندے، جو 1890 ءکی دہائی میں مشرقی افریقا میں داخل ہوئے تھے، اب کینیا کے ساحلی علاقوں میں ماحول، معیشت اور معیارِ زندگی کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔
 
ہندوستانی کوؤں کو دنیا کے سب سے زیادہ جارحانہ اور تباہ کن پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
 
 ماہرین کے مطابق یہ نا صرف مقامی پرندوں بلکہ ممالیہ جانوروں اور رینگنے والے جانوروں پر بھی حملہ کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع پر ان کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔
 
یہ کوے مقامی جنگلی حیات پر حملہ کرتے ہیں، زرعی مصنوعات اور پولٹری فارمز کو تباہ کرتے ہیں، اور رہائشیوں اور سیاحوں کے لیے بہت زیادہ پریشانی پیدا کرتے ہیں۔ 
 
انہوں نے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کو بھی پریشان کن آوازیں لگا کر اور اپنے فضلے سے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔
 
کینیا کے سمال گارڈنز کی مالک سیسلیا روٹو، جسے زہر درآمد کرنے کا لائسنس حاصل ہے، کا کہنا ہے کہ 2022 ءمیں اس زہر کی تاثیر کے ٹیسٹ کے دوران تقریباً دو ہزار کوے مارے گئے۔
 
 روٹو نے مزید کہا کہ "یہ سست رفتار زہر مکمل طور پر میٹابولائز ہوتا ہے اور موت سے پہلے کوے کے جسم میں جذب ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کوے کی لاش پر کھانا کھانے والی کسی بھی دوسری نسل کے لیے ثانوی زہر کا خطرہ بہت کم ہے۔"
 
اس وقت کینیا میں دو کلو گرام یہ زہر دستیاب ہے جس سے تقریباً 20,000 کوؤں کی ہلاکت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لیکن نیوزی لینڈ سے مزید زہر درآمد کرنے کا منصوبہ ہے۔
 
اس نوع کو زہر دینے کے عمل کو جانوروں کے حقوق کے کارکنوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو اسے ایک "غیر انسانی" عمل سمجھتے ہیں اور متبادل طریقوں کے استعمال کا مطالبہ کرتے ہیں۔
 
 لیکن اس منصوبے کے محافظوں کا خیال ہے کہ یہ کارروائی ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے اور دارالحکومت نیروبی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں ان پرندوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔
 
ان پرندوں کے بڑھنے سے اس ملک کی سیاحت کی صنعت بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ 
 
ہوٹلوں کو ان کوؤں سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے آزمانے پڑے لیکن ان میں سے زیادہ تر طریقے ناکام رہے ہیں۔
 
کینیا کے حکام کو امید ہے کہ اس اقدام سے وہ کوے کی آبادی کو قابل انتظام سطح تک کم کر سکتے ہیں اور ماحولیاتی نظام اور مقامی معیشت کو مزید نقصان سے بچا سکتے ہیں۔