اس جدید مشین کو ہائیڈروجین کا نام دیا گیا ہے اور یہ بحریہ یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹریکل کے طلبہ علی جان، حشام بن تبسم اور سیدہ آمنہ علی نے اپنے استاد انجینئر ڈاکٹر اورنگزیب راشد مسعود کی زیر نگرانی تیار کی ہے۔
ہائیڈروجین مشین کے ذریعے تیار ہونے والا پانی مارکیٹ میں موجود ملٹی نیشنل برانڈز کے پانی کے مقابلے میں 70 فیصد سستا ہے،جبکہ معیار کے لحاظ سے یہ پانی ان بین الاقوامی کمپنیوں کے برابر ہے۔اس مشین کی خاص بات یہ ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر حل فراہم کرتی ہے۔
ہائیڈروجین نہ صرف پانی کی قلت والے علاقوں میں آلودگی سے پاک پینے کا پانی فراہم کرے گی بلکہ پاکستان میں آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے میں بھی مدد دے گی۔یہ مشین ہوا سے 60 فیصد تک نمی کو پینے کے صاف پانی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،جس کا معیار بوتل بند پانی فروخت کرنے والی عالمی کمپنیوں کے معیار کے برابر ہے۔
ہائیڈروجین مشین سے حاصل ہونے والے پانی کی لاگت موجودہ بجلی کی قیمتوں کے مطابق 29 روپے فی لیٹر ہے،تاہم اگر اسے شمسی توانائی پر منتقل کر دیا جائے تو پانی کی قیمت مزید کم کی جا سکتی ہے۔دور دراز اور بجلی سے محروم علاقوں میں شمسی توانائی کے ذریعے اس مشین سے پینے کا صاف پانی کم قیمت پر فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ مشین پسماندہ علاقوں کیلئے بھی قابل رسائی اور فائدہ مند ثابت ہو گی۔
واضح رہے کہ اب تک ہوا سے پانی نکالنے کی اس ٹیکنالوجی پر اسرائیل اور امریکا کی اجارہ داری رہی ہے،مگر پاکستانی طلبا نے یہ ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکا سے تین سے چار گنا کم قیمت پر تیار کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
ٹیم کے رکن حشام بن تبسم کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجین مشین کی تیاری پر 2 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں،لیکن اگر اسے تجارتی بنیادوں پر تیار کیا جائے تو اس کی لاگت کم ہو کر ڈیڑھ لاکھ روپے تک آ سکتی ہے۔
اس مشین کو شمسی توانائی سے چلایا جائے تو فی لیٹر پانی کی لاگت صرف پچاس پیسے رہ جاتی ہے۔مزید برآں مشین کی کارکردگی اور ہوا سے پانی کشید کرنے کے عمل کو ایک موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے مانیٹر اور کنٹرول کیا جا سکتا ہے،جبکہ پانی کے معیار کو بھی رئیل ٹائم بنیادوں پر چیک کیا جا سکتا ہے۔ معیاری پرزہ جات اور کمپونینٹس کے استعمال سے ایک مشین 10 سے 15 سال تک پینے کا پانی فراہم کر سکتی ہے۔
حشام بن تبسم نے بتایا کہ یہ مشین گھروں،دفاتر یا فیکٹریوں میں نصب ایئر کنڈیشنرز سے نکلنے والے پانی کو بھی پینے کے قابل بنا سکتی ہے،جس کیلئے صرف اے سی کے پائپ کو مشین سے منسلک کرنا ہوگا۔اس طرح ایئر کنڈیشنرز سے نکلنے والے پانی کو 75 پیسے سے ایک روپے فی لیٹر کی لاگت پر پینے کے محفوظ پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
بحریہ یونیورسٹی کے طلبا کی اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے امید کی جا رہی ہے کہ گھریلو مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لیں گی اور تجارتی بنیادوں پر تیار کریں گی،تاکہ ملک میں پینے کے صاف پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور صحت کے مسائل کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ اس اہم ایجاد کے بعد پاکستان کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں عالمی سطح پر اپنی شناخت بنانے کا موقع بھی ملے گا۔