اینٹی بائیوٹکس کے بے جا اور ادھورے استعمال کے باعث پاکستان میں اینٹی مائیکروبیل مزاحمت تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں عام انفیکشنز کا علاج بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق ملک میں ہر سال دو سے تین لاکھ افراد ایسے انفیکشنز کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو ادوایات کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہوتے ہیں جبکہ اسپتالوں کے آئی سی یوز میں ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ جراثیم کے کیسز تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مالیکیولر پیتھالوجی لیبارٹری کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سعید خان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اینٹی مائیکروبیل مزاحمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بیکٹیریا اور دیگر جراثیم وقت کے ساتھ خود کو ادوایات کے خلاف مضبوط بنا لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں انفیکشن کا علاج مشکل یا بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔
ان کے مطابق یہ مسئلہ نہ صرف اموات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے بلکہ سرجری، کیمو تھراپی اور نوزائیدہ بچوں کے علاج جیسے حساس طبی شعبوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ماوتھ واش کے استعمال سے بلڈ پریشر بڑھنے کا خدشہ
طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بغیر نسخے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال، ادوایات کا مکمل کورس نہ کرنا، اسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول کے ناقص انتظامات اور پولٹری و مویشیوں میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال اس سنگین صورتحال کی بڑی وجوہات ہیں۔
کراچی کے بڑے اسپتالوں میں ای کولی، کلیبسئیلا، ایم آر ایس اے اور ایکس ڈی آر ٹائیفائڈ جیسے جراثیم علاج کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق 2050 تک اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ اموات کا سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین نے عوام پر زور دیا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس صرف مستند ڈاکٹر کے مشورے سے اور مکمل دورانیے کے ساتھ استعمال کی جائیں ورنہ یہ لاپرواہی آنے والی نسلوں کے لیے ایک جان لیوا بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔