پاکستان ہائی کمیشن لندن کے مطابق جنرل (ر) زبیر محمود حیات، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ڈاکٹر محمد فیصل مباحثے کے لیے لندن موجود تھے لیکن بھارتی وفد حاضری کی ہمت نہ کر سکا۔
کمیشن کے مطابق قرارداد یہ تھی کہ بھارت کی پاکستان پالیسی محض عوامی جذبات بھڑکانے کی حکمت عملی ہے، بھارتی مقررین نے اسی بحث سے راہِ فرار اختیار کی، بھارتی وفد کی دستبرداری نے آکسفورڈ یونین جیسے غیرجانبدار فورم پر بھارتی بیانیے کی کمزوری بے نقاب کر دی۔
پاکستانی ہائی کمیشن لندن کی جانب سے کہا گیا کہ بھارتی رہنما ٹی وی چینلز پر شور مچاتے ہیں مگر علمی مباحثے میں دلیل اور جواب دینے سے گھبراتے ہیں، آکسفورڈ میں طلبہ کی اکثریت بھارتی ہونے کے باوجود بھارتی وفد نے ووٹ کا سامنا کرنے سے انکار کیا۔
ہائی کمیشن کے مطابق بھارت کی نام نہاد “سیکورٹی پالیسی” آکسفورڈ یونین میں ممکنہ منطقی سوالات کا وزن نہ اٹھا سکی، بھارتی مقررین نے ممکنہ شرمندگی سے بچنے کے لیے پہلے سے طے شدہ مباحثہ خود ہی سبوتاژ کر دیا، میڈیا پر پاکستان مخالف پراپیگنڈا کرنے والے بھارتی تجزیہ کاروں کو جب کھلی بحث کا موقع ملا تو غائب ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل ساحر شمشاد اپنے عہدے سے سبکدوش
پاکستانی ہائی کمیشن نے کہا کہ آکسفورڈ یونین میں بھارتی وفد کی غیرحاضری مئی 2025 کے بعد سے جاری سفارتی و بیاناتی ناکامیوں کی تازہ کڑی ہے، چرچل نے کہا تھا “گفتگو جنگ سے بہتر ہے”، بھارت آج ثابت کر رہا ہے کہ وہ نہ گفتگو کے لیے تیار ہے نہ جواب دہی کے لیے۔
ہائی کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے دلیل، مکالمے اور قانونی مؤقف سے بحث جیتنے کی تیاری کی، بھارت نے بحث شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے، آکسفورڈ یونین میں بھارتی وفد کی عدم شرکت ان کے اپنے عوام کے سامنے بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔