لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس راجہ غضنفر علی خان نے شعیب ظفر کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ 6 جون 2025 کو فریدہ بی بی سے پسند کی شادی کی ، لڑکی کے والدین نے زبردستی بیوی کو اپنے پاس رکھا ہے۔
جسٹس راجہ غضنفر علی خان ن نے ریمارکس میں کہا کہ اگر لڑکی نے آکر تمہارے حق میں بیان نہ دیا تو 50 ہزار روپے جرمانہ کروں گا۔
دوران سماعت لڑکی نے والدین کے ساتھ جانے کا بیان دے دیا جس پر عدالت نے لڑکی کے بیان کے بعد درخواست گزار کو 50 ہزار جرمانہ کر دیا۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ جب تک جرمانہ ادا نہیں ہو گا درخواست گزار پولیس کی حراست میں رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی کا معاملہ، درخواست سماعت کیلئے مقرر
خیال رہے کہ پاکستان میں پسند کی شادی کوئی نئی بات نہیں تاہم ایسے معاملات میں اکثر نوجوانوں کو سماجی دباؤ، خاندانی مخالفت اور قانونی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس تناظر میں عدالتوں میں عموماً ایسے کیسز میں لڑکی کے بیان کو بنیادی حیثیت دی جاتی ہے کیونکہ قانون کے مطابق بالغ لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق رکھتی ہے۔
کئی کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ درخواست گزار یا فریقین کی جانب سے غلط بیانی یا حقائق کو چھپانے کی کوشش صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہے، جس کے باعث عدالتیں سخت مؤقف اپناتی ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پسند کی شادی کے مقدمات میں سچائی اور شفاف معلومات فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ نہ صرف کیس کا جلد فیصلہ ہو سکے بلکہ کسی بھی فریق کیلئے غیر ضروری قانونی مشکلات بھی پیدا نہ ہوں۔