درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو نوٹس جاری کیا ، الیکشن کمیشن کے نوٹس میں کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال کیا، نوٹس میں کہا گیا کہ جلسہ حویلیاں میں تھا لیکن یہ این اے 18 کی حدود نہیں بنتی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، وزیر اعلیٰ نے تقریر کے دوران یہ کہا تھا کہ اگر کوئی دھاندلی کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی، وزیر اعلیٰ کے خلاف دو کارروائیاں چل رہی ہیں، ایک ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفس اور دوسری الیکشن کمیشن کی ہے۔
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار ہے، انتخابات کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کے اسٹاف کو دھمکانا بھی ضابط اخلاق کی خلاف ورزی میں آتا ہے، ہم چاہتے ہیں درخواست گزار الیکشن کمیشن کی حتمی کارروائی کا انتظار کرے۔
یہ بھی پڑھیں: سہیل آفریدی کا الیکشن کمیشن طلبی پر ہائیکورٹ سے رجوع
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ شہرناز عمرایوب این اے 18 کے ضمنی انتخابات میں امیدوار تھیں، الیکشن کمیشن نے شہر ناز عمر ایوب کو 20 نومبر کو غیر قانونی نوٹس جاری کیا، شہر ناز عمر ایوب نے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی، شہر ناز عمر ایوب نے نہ جلسے میں شرکت کی نہ ہی ان کو وزیراعلیٰ کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔
نمائندہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست گزار الیکشن کمیشن کارروائی میں پیش ہو کر اپنی پوزیشن واضح کر لیں، الیکشن کمیشن نے ابھی درخواست گزار کے خلاف کوئی واضح کارروائی نہیں کی۔
بعدازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اور این اے 18 سے امیدوار شہرناز عمر ایوب کی درخواستوں کو خارج کر دیا جبکہ تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔