سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم نے سپیکر کو کہا رولز کے مطابق ریکوزیشن جمع کر اچکے ہیں، لیڈر آف اپوزیشن ان افراد کا حق ہے جو اپوزیشن بنچز پر بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عددی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے 74 ارکان کے دستخط کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہمارا ہونا چاہیے،سپیکر نے ہمیں کہا اپوزیشن لیڈر کا معاملہ عدالت میں تھا، سپیکر نے بتایا سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس آیا ہوا تھا،جوں ہی سپریم کورٹ سے کاپی ہمیں موصول ہوتی ہے تو اس پر پیشرفت ہوگی۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کریں گے سپریم کورٹ سے کاپی لے کر سپیکر آفس میں پہنچائیں،ہم نے کہا ہے پیر تک سپیکر آفس میں سپریم کورٹ سے کاپی لا کر جمع کروائی جائے گی، پیر تک اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔
آئینی ترمیم سے متعلق بات کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آرٹیکل 243 فورسز سے متعلق ہے ، اس سے قبل بھی یہ کچھ چیزیں ترامیم کے لیے لائے تھے، جس وقت آرٹیکل 243 سے متعلق مسودہ سامنے آئے گا تو ہی بات کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کی این ایف سی فارمولے میں تبدیلی کی تجویز مسترد
ان کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ میں گارنٹی دی گئی تھی کہ صوبوں کا حصہ سابقہ حصے سے کم نہیں ہو گا، این ایف سی ایوارڈ میں گارنٹی تھی کہ اس سے وفاق کمزور نہیں مضبوط ہو گا، ایوب خان کے دور میں آئین مختلف تھا تب ایک شخص دو سیٹوں پر بھی اسمبلی میں بیٹھ سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں ایسی بھی شقیں رہیں کہ بیک وقت کوئی قومی و صوبائی اسمبلی کا ممبر رہ سکتا تھا، آئین میں ترمیم اتفاق رائے سے ہونی چاہیے نہ کہ اکثریت ہو تو اپ جو مرضی فیصلے کریں،آئین اس لیے اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ پوری قوم کا ڈاکومنٹ ہوتا ہے۔
بیرسٹر گوہر کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا ہاؤس اہم آفس ہے وہاں پولیس بھیجنے کی مذمت کرتے ہیں ، اگر اپ نے وارنٹ دینا ہے تو آپ عدالت کے بیلف کے ذریعے بھی دے سکتے ہیں۔