یہ اقدام سندھ اور اسلام آباد کی مثال پر عمل کرتے ہوئے کم عمری کی شادیوں پر قابو پانے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔
پنجاب کمیشن برائے خواتین کے ڈویژنل کوآرڈی نیٹر قیصر محمود نے بین الاقوامی کانفرنس میں اس مجوزہ قانون سازی کا اعلان کیا۔ یہ کانفرنس پوٹھوہارآرگنائزیشن فار ڈیولپمنٹ ایڈووکیسی (پوڈا) نے رائل نارویجن ایمبیسی، وزارتِ انسانی حقوق اور ویمنز پارلیمنٹری کاکس کے تعاون سے منعقد کی۔
پاکستان، بنگلہ دیش، یمن، انڈونیشیا، مراکش، عمان، نائیجیریا، روانڈا، شام اور تیونس سمیت کئی مسلم ممالک کے علما اور ماہرین نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
قیصر محمود نے بتایا کہ بل کا مسودہ تیار ہو چکا ہے اور اب وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے پاس منظوری کے لیے موجود ہے۔ مجوزہ قانون کے تحت جو بھی بالغ شخص 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرے گا اسے دو سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ نکاح رجسٹرار اور گواہوں کو بھی دو سے تین سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے نئی سہولت متعارف
اس اعلان کو شرکا نے خوشی سے سراہا اور امید ظاہر کی کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، اور گلگت بلتستان بھی جلد پنجاب کی پیروی کریں گے۔
صدر پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے کم عمری کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے آئینی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ قوانین کو مضبوط بنانے اور خاندانوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لڑکیوں کی صحت، ذہن اور مستقبل پر کم عمری کی شادی کے منفی اثرات کو روکا جا سکے۔
یونیسف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1.9 کروڑ بچپن میں بیاہی گئی لڑکیاں موجود ہیں اور ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ کانفرنس میں ماہرین نے مطالبہ کیا کہ کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے ایک مربوط قومی ایکشن پلان تیار کیا جائے تاکہ اس کے سماجی اور صحت سے متعلق مسائل کا حل نکالا جا سکے۔