
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ وکیل خیبرپختونخوا حکومت نے موقف اپنایا کہ ہمیں بینچ کے کسی رکن جج پر ذاتی حیثیت میں کسی قسم کا
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت نے عمران خان کا جیل ٹرائل بحال کردیا
کوئی اعتراض نہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جانی چاہیے۔
وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل معلومات تک رسائی ہونی چاہیے، چھبیسویں ترمیم کا ڈرافٹ بھی عوامی سطح پر شیئر نہیں کیا گیا تھا، نہ ہی چھبیسویں ترمیم پر عوامی سطح پر کوئی بحث ہوئی تھی، کم از کم عدالتی سطح پر تمام کاروائی عوام کے سامنے لائیو سٹریم ہونی چاہیے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ چھبیسویں ترمیم بھی رات کے اندھیرے میں منظور کی گئی تھی، اس سے پہلے ذوالفقار بھٹو کیس، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت لائیو نشر کی جا چکی ہے، مونال ریسٹورنٹ کیس، شوکت عزیز صدیقی کیس، ایف 9 پارک میں درختوں کی کٹائی سے متعلق کیس، بلے کے انتخابی نشان کیس اور مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ ہو چکی ہے، مخدوم علی خان نے چھبیسویں ترمیم کیس کو صدی کا سب سے بڑا کیس قرار دیا ہے، اس لیے اس کیس کی سماعت فل کورٹ یا فل آئینی بینچ کو کرنی چاہیے۔
جسٹس نعیم افغان نے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں دن کی روشنی میں سماعت کے علاوہ لائیو سٹریم بھی ہونی چاہیے۔ جس پر وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ ترمیم رات کے اندھیرے میں پاس کی گئی اس لیے حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کی درخواستوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔



