
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 16 سال سے کم عمر بچے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بالخصوص فیس بک اور ٹک ٹاک پر غیر مناسب اور غیر اخلاقی مواد دیکھتے ہیں، جس کا ان کی تعلیم اور ذہنی نشوونما پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق، بچے اس طرح کے مواد کے زیرِ اثر غیر اخلاقی سرگرمیوں کے عادی ہو رہے ہیں جو مستقبل میں ان کی شخصیت اور سماجی کردار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک بناتے ہوئے نوجوان دریائے ستلج میں ڈوب گیا
ایڈووکیٹ رانا سکندر نے اپنی درخواست میں کہا کہ فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر موجود مواد بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور کر رہا ہے اور ان کی توانائی کا ضیاع ہو رہا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کم عمر بچے نہ صرف وقت ضائع کر رہے ہیں بلکہ غیر اخلاقی رجحانات کی طرف بھی مائل ہو رہے ہیں۔
درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کئی ممالک، جن میں آسٹریلیا اور فرانس شامل ہیں، نے اپنی پارلیمنٹس میں 16 سال سے کم عمر بچوں پر فیس بک اور ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے تاکہ بچوں کو ذہنی، اخلاقی اور تعلیمی نقصان سے بچایا جا سکے۔ اس کے باوجود پاکستان میں تاحال ایسے کسی اقدام پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
مزید کہا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بھی بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے اور ان کی تعلیم و تربیت کو نقصان سے بچانے کے حوالے سے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی کرے اور اس سلسلے میں واضح ضابطہ کار مرتب کیا جائے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاشرتی بگاڑ اور تعلیمی انحطاط کو روکنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی موجودہ صورت حال میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے اور مستقبل کی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لیے سخت احکامات جاری کرے۔



