
درمیانے قد، ہمیشہ مسکراتے چہرے اور عام فہم مگر چبھتے جملوں میں اپنی بات کہنے والے انجینئر محمد علی مرزا کو لوگ کبھی "دلیل باز" کہتے ہیں تو کبھی "فرقہ شکن"، اور کچھ کے نزدیک وہ ایک ایسے مبلغ ہیں جو کسی روایتی سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔
ان کی اکیڈمی میں بیٹھک ہو یا یوٹیوب پر نشر ہونے والے ہزاروں لیکچرز، ہر جگہ وہ سوال اٹھاتے ہیں، تنقید کرتے ہیں اور ایسے نکات بیان کرتے ہیں جن پر عام طور پر بولنے سے گریز کیا جاتا ہے، ان کا یہی انداز انہیں لاکھوں سامعین تو دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اتنے ہی مخالفین بھی پیدا کرتا ہے، جو اکثر ان کی ذات کو ہدف بناتے ہیں۔
کبھی مخالف علما ء ان کی اکیڈمی کے باہر مناظرے کا اعلان کرتے ہیں، کبھی سوشل میڈیا پر چیلنجز دیے جاتے ہیں اور کبھی بات سنگین حملوں تک جا پہنچتی ہے، 2017 اور 2021 کے قاتلانہ حملے اس کشمکش کا کھلا ثبوت ہیں جن سے وہ بال بال بچے۔
انجینئر محمد علی مرزا کے ناقدین انہیں مختلف مسلکی گروہوں کا "ایجنٹ" قرار دیتے رہے ہیں، لیکن ان کے چاہنے والے انہیں "مسلکی تقسیم سے بالاتر ایک متحد کرنے والی آواز" مانتے ہیں، تاہم اختلاف کی یہ تپش وقتاً فوقتاً عدالتوں اور انتظامیہ کے دروازوں تک بھی جا پہنچی ہے۔
مئی 2020 میں محمد علی مرزا کو پہلی بار حراست میں لیا گیا اور پھر انہوں نے عدالت سے رہائی پائی لیکن 26 اگست 2025 کو جہلم انتظامیہ نے ایک بار پھر اُن پر لگے الزامات کو امنِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے انہیں تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کر لیا۔
اُن کی اکیڈمی سیل کر دی گئی اور وہ براہِ راست ایک بار پھر پاکستان کی مذہبی و سیاسی بحث کے مرکز میں آ گئے ہیں۔
جہلم پولیس کے ترجمان عمر سعید کے مطابق ان کی گرفتاری تھری ایم پی او قانون کے تحت کی گئی ہے اور اس کے لیے باضابطہ درخواست بھی موجود ہے جس کی بنیاد پر یہ اقدام کیا گیا، تھری ایم پی او، یا مینٹی ننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس، حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی شخص کو حفاظتی حراست میں لیا جا سکتا ہے اگر اس سے عوامی امن و امان یا نظم کے لیے خطرہ محسوس ہو۔
اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو ایک محدود مدت کے لیے گرفتار کیا جا سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک ہو سکتی ہے تاہم تین ماہ سے زیادہ طویل حراست کے لیے عدالتی نگرانی لازمی ہوتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن اس قانون کو متنازع قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسے بارہا بنیادی انسانی حقوق محدود کرنے اور مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، انجینئر محمد علی مرزا کی گرفتاری نے بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ اقدام واقعی امن و امان کے تناظر میں تھا یا پھر اسے اختلافی اور تنقیدی آراء کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
جہلم پولیس کے مطابق انجینئر محمد علی مرزا کو حراست میں لینے کا فیصلہ اُس درخواست کی بنیاد پر کیا گیا جو ڈسٹرکٹ پولیس افسر جہلم کو جمع کروائی گئی تھی، اس درخواست میں الزام لگایا گیا کہ ایک حالیہ انٹرویو میں ان کے کچھ بیانات نے مبینہ طور پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے، درخواست گزار نے اسی بنیاد پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی تھی۔
جہلم کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس چودھری شہباز ہنجرا نے عالمی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انھوں نے ہی رات گئے محمد علی مرزا کو حراست میں لیا اور فی الحال وہ 30 روز کے لیے ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں نظر بند ہیں۔
شہباز ہنجرا کے مطابق گرفتاری کے وقت محمد علی مرزا کو الزامات اور حالات کی سنگینی سے آگاہ کر دیا گیا تھا، انہوں نے واضح کیا کہ ڈسٹرکٹ جیل میں ان سے صرف وکلا اور اہل خانہ ہی ملاقات کر سکیں گے کیونکہ یہ ایک حساس مذہبی معاملہ ہے اور سب سے پہلی ترجیح ان کی جان کی حفاظت ہے۔
پولیس کے مطابق 3 ایم پی او کے تحت یہ نظربندی فوری انتظامی اقدام تھا تاکہ حالات مزید نہ بگڑیں، اس وقت معاملہ تفتیش کے مراحل میں ہے اور اگر محمد علی مرزا قصوروار ثابت ہوئے تو ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الوقت محمد علی مرزا کی اکیڈمی کو سیل کر دیا گیا ہے تاکہ اس تنازع کے اثرات مزید نہ پھیل سکیں، یہ صورتحال نہ صرف قانونی اور انتظامی سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی ایک نئی بحث کو جنم دے رہی ہے کہ آیا یہ اقدام مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے کیا گیا یا اختلافی آراء کو دبانے کے لیے۔
محمد علی مرزا کی جانب سے اب تک کسی وکیل کو مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اُن کے خلاف جاری تھری ایم پی او کے حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معروف مذہبی سکالر انجینئر محمد علی مرزا گرفتار
جیل حکام کے مطابق حالات کی سنگینی کے پیش نظر آج کسی کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ دوسری جانب ڈپٹی کمشنر جہلم کی طرف سے جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او جہلم کی رپورٹ کے مطابق انجینئر محمد علی مرزا کو عوامی تحفظ اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
اس حکم نامے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ محمد علی مرزا نے حالیہ دنوں میں ایسی تقاریر کیں جو نہ صرف انتہائی قابلِ اعتراض اور اشتعال انگیز ہیں بلکہ ان کے باعث فرقہ وارانہ تقسیم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ ان بیانات سے مذہبی جذبات کو مجروح کر کے نفرت کو ہوا دینے اور امن و امان کی صورتحال بگڑنے کا اندیشہ ہے، انتظامیہ کے مطابق یہی وہ بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں محمد علی مرزا کو 3 ایم پی او کے تحت حفاظتی حراست میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
انجینئر محمد علی مرزا پاکستان کے اُن چند مذہبی اسکالرز میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی شناخت کسی خاص مسلک یا مذہبی گروہ کی بجائے ایک آزاد محقق کے طور پر بنائی ہے، اُن کا تعلق پنجاب کے شہر جہلم سے ہے، جہاں وہ اپنے قائم کردہ ادارے میں مذہبی موضوعات پر کھلے انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔
اُن کے لیکچرز اور ویڈیوز میں عام طور پر سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے جسے وہ آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرتے ہیں،وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے لاکھوں سامعین تک پہنچتے ہیں، جہاں اُن کی ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں اور سبسکرائبرز کی تعداد بھی 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مرزا کو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اردو بولنے اور سننے والے بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں، اُن کی مقبولیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی خاص فرقے یا سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں کرتے بلکہ خود کو صرف "مسلم علمی کتابی" کہتے ہیں، البتہ ان کا یہی غیر روایتی انداز اور دلائل پر مبنی گفتگو اُنہیں اکثر تنقید اور تنازعات کی زد میں لے آتی ہے۔
ماضی میں اُن پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں، 2017 اور 2021 میں اُن پر حملوں کے باوجود وہ محفوظ رہے، تاہم ایک حملے میں اُنہیں بازو پر زخم بھی آیا، 2020 میں اُنہیں مبینہ طور پر مذہبی شخصیات کی گستاخی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، مگر بعد ازاں عدالت نے رہائی کا حکم دیا۔
صحافیوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ محمد علی مرزا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ علمی اور تحقیقی بنیاد پر بات کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کے مخالفین بھی اُنہیں دلیل کے بجائے ذاتی طور پر نشانہ بناتے ہیں۔
بعض اوقات اُنہیں کسی خاص فرقے کا "ایجنٹ" قرار دیا جاتا ہے، کبھی احمدی ایجنٹ کہا جاتا ہے اور کبھی شیعہ، حالانکہ وہ کھل کر کہتے ہیں کہ اُن کا کسی مسلک سے تعلق نہیں،اس کے باوجود اُن کے لاکھوں سامعین اُنہیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر سوچنے والا اور لوگوں کو یکجا کرنے والا اسکالر سمجھتے ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا ایک متنازع لیکن پراثر مذہبی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی جگہ سوشل میڈیا اور عوامی مباحثے میں منفرد طور پر قائم کی ہے،انجینئر محمد علی مرزا کے گرد تنازع اور آمنا سامنا کا سلسلہ ایک دہائی سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے۔
2017 میں اُن پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا جسے وہ خود معاف کرنے کا ذکر کرتے رہے مگر مارچ 2021 میں اُن کی جہلم اکیڈمی کے اندر چاقو سے حملے کی دوسری واردات ہوئی تو یہ تنازع کھل کر قومی خبر بن گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق حملہ جمعے کے بعد تصاویر کھنچوانے کے دوران ہوا، ملزم موقع پر گرفتار ہوا اور مرزا نے بعد ازاں شکایت کی کہ بارہا کہنے کے باوجود حفاظتی بندوبست نہ ملا، اسی پس منظر میں مقامی اخبار نے یہ بھی لکھا کہ پولیس ذرائع نے ایک “مولوی” کی طرف سے حملہ آور کو اکسانے کا اشارہ دیا، جبکہ ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی نے کبھی اُنہیں فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی سفارش بھی کی تھی۔
اس سارے ماحول نے اُن کی اکیڈمی کے معمولات، لیکچرز اور آنے جانے والوں کی جانچ پڑتال کو مستقل تنازع بنا دیا، مناظرے اور بالمشافہ مباحثے کی کھینچا تانی 2021 میں اُس وقت عروج پر پہنچی جب معروف دیوبند عالم مفتی طارق مسعود جہلم پہنچے۔
مقامی میڈیا اور بعد کے پوڈکاسٹس میں اسے “رابطہ نہ ہو سکا” اور “سکیورٹی وجوہات” جیسے جملوں میں سمیٹا گیا، اور مناظرہ مؤخر یا موقوف رہا، برسوں کی ویڈیوز میں ایک دوسرے پر علمی نکات کے جواب آتے رہے مگر اکیڈمی کے اندر باقاعدہ نشست ممکن نہ بن سکی، یہاں تک کہ اکتوبر 2021 میں مفتی طارق مسعود نے اسے اپنی “فتح” قرار دے کر قصہ ختم سمجھا۔
دوسری جانب محمد علی مرزا کے حلقوں میں اسے غیر سنجیدہ ماحول اور حفاظتی خدشات کا نتیجہ کہا گیا۔
بعد ازاں 2023 میں بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی حنیف قریشی اپنے رفقا کے ساتھ اکیڈمی کے باہر پہنچے تو پولیس نے ریکارڈنگ آلات پر پابندی لگائی، اندر آنے کی پیشکش ضابطوں کے ساتھ مشروط رہی اور یوں یہ ملاقات بھی بغیر مباحثے ختم ہوگئی۔
اس سارے سلسلے نے ایک تاثر مضبوط کیا کہ مناظرے کی سیاست باہر سڑکوں اور سوشل میڈیا پر زیادہ گرم رہتی ہے جبکہ بند کمرے میں قواعد طے پانا سب سے مشکل مرحلہ بنتا ہے، یہ کشمکش محض نظری نہیں رہی، عدالتی اور انتظامی موڑ بھی آئے۔
مئی 2020 میں جہلم پولیس نے اُنہیں مذہبی منافرت کے الزام میں حراست میں لیا، پھر عدالت سے رہائی ملی، اگلا بڑا موڑ 25 اگست 2025 کو آیا جب ڈپٹی کمشنر جہلم کے احکامات پر تھری ایم پی او کے تحت اُنہیں تحویل میں لے کر اکیڈمی سیل کر دی گئی۔
اس فیصلے کی وجہ حالیہ بیانات کو امنِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دینا بتائی گئی جبکہ ناقدین نے اسے اظہارِ رائے پر قدغن کہا، یوں مرزا کا معاملہ مسلکی اختلاف سے نکل کر نظمِ عامہ، ضلعی انتظامیہ اور شہری آزادیوں جیسے موضوعات میں مدغم ہوتا چلا گیا اور وہی سلسلہ جس نے اُنہیں لاکھوں سامعین دیے تھے، اُن کے لیے نگرانی اور قدغنوں کا جواز بھی بنتا رہا۔
اکیڈمی کے باہر “آؤ اور بات کرو” طرز کے چیلنج وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے رہے، سوشل میڈیا نے ہر مرحلے کو براہِ راست رائے عامہ کے عدالت خانے میں رکھ دیا جہاں ایک فریق “ہم پہنچ گئے” اور دوسرا “ضابطے پورے کرو” کہہ کر اپنی اپنی کامیابی سمیٹ لیتا ہے، نتیجہ یہ نکلا کہ اصل علمی مکالمہ کم اور اس کی سیاست زیادہ دکھائی دی اور اکیڈمی کے دروازے تنازع کی علامت بنتے گئے۔
ان برسوں میں تشدد کے خدشات بھی پس منظر میں موجود رہے، 2017 کے پہلی واردات کے تذکرے سے لے کر 2021 کے حملے تک اور پھر 2023 میں “ایک اور کوشش ناکام” جیسے دعووں تک، ہر واقعہ نے پولیس بندوبست اور نجی سکیورٹی کی بحث کو تازہ رکھا۔
انسانی حقوق کے مباحث میں ایسے معاملات کو عمومی مذہبی فضا اور توہینِ مذہب کے قوانین کے سیاق میں بھی دیکھا جاتا ہے جہاں الزام کی تپش اکثر شہری آزادیوں اور ملزم کی سلامتی دونوں کے لیے خطرہ بن جاتی ہے، اس کڑی میں مرزا کا کیس ایک مطالعۂِ حال بن کر سامنے آتا ہے کہ کس طرح عوامی اثر رکھنے والی مذہبی آواز کے گرد اختلاف، حفاظتی انتظامات اور انتظامی اقدامات ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔
اِس تمام تاریخ سے جو نقش ابھرتا ہے وہ یہ کہ محمد علی مرزا کے مخالفین مختلف مسالک اور گروہوں میں پائے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا کی طاقت نے ہر اختلاف کو فوری “ریفرنڈم” میں بدل دیا ہے، کبھی ایک طرف لاکھوں ناظرین کا سہارا اور دلیل پر اصرار ہوتا ہے تو دوسری طرف اسی سہارے کو عوامی اشتعال اور امنِ عامہ کے خدشات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
مناظرے کے اعلانات، جہلم کی دہلیز پر آکر چیلنج، پولیس کی باریک شرائط اور پھر سب کچھ التوا یہ سب مل کر بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی مکالمے کی اگلی منزل صرف “کون جیتا” کے نعروں سے نہیں آئے گی، اسے محفوظ، باقاعدہ اور جواب دہانہ ماحول درکار ہے جس میں بات صرف اندر ہو اور شور باہر نہ بنے۔
انجینئر محمد علی مرزا کی گفتگو کا دائرہ وقت کے ساتھ اس حد تک وسیع ہو گیا کہ وہ محض مذہبی اختلافات تک محدود نہ رہا بلکہ سیاستدانوں پر براہِ راست الزامات لگانے لگے، وہ صرف یہ نہیں کہتے تھے کہ حکمران طبقہ نااہل ہے، بلکہ کھلے عام ان پر کرپشن، اقربا پروری اور مفاد پرستی کے الزامات عائد کرتے۔
محمد علی مرزا کے مطابق سیاستدان عوام کے مسائل کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد عوامی وعدے محض نعروں میں بدل جاتے ہیں، یہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں پر بھی انہوں نے دوغلے پن اور وقتی بیانیوں کی سیاست کے الزامات لگائے، جس نے سیاسی حلقوں میں اُن کے خلاف مخالفت کو مزید بڑھا دیا۔
اسی طرح مختلف مکاتبِ فکر پر تنقید کرتے ہوئے بھی وہ محض علمی دلائل تک محدود نہ رہتے بلکہ سخت الزامات لگاتے کہ یہ گروہ اپنے ماننے والوں کو شعور دینے کے بجائے اندھی تقلید پر مجبور کرتے ہیں اور مذہب کو ذاتی مفادات یا فرقہ وارانہ اثرورسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان کے یہ بیانات کئی بار براہِ راست دشمنی کی صورت اختیار کر گئے، ناقدین کے مطابق مرزا کی زبان صرف تنقید نہیں بلکہ الزامات کے تیر برساتی ہے جو اختلاف کو اور زیادہ گہرا کر دیتے ہیں، یوں مرزا کا معاملہ محض علمی مباحث یا نظریاتی گفتگو تک نہیں رہا بلکہ ایک ایسا تنازع بن گیا جس نے سیاست اور مذہب دونوں میدانوں میں انہیں کڑی تنقید اور مخالفت کا نشانہ بنا دیا۔
ان کے حمایتی انہیں "سچ بولنے والا" سمجھتے ہیں مگر اُن کے مخالفین انہیں "الزام تراشی کرنے والا شخص" قرار دیتے ہیں اور یہی کشمکش آج بھی اُن کے گرد شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔