
قومی اسمبلی کے ارکان کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تیزی سے خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق آئندہ سال سیلابوں کی شدت میں 22 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہا تو شمالی علاقوں کے گلیشیئرز تیزی سے ختم ہو سکتے ہیں، جو سنگین ماحولیاتی اور اقتصادی چیلنجز کا باعث بنیں گے۔
جنرل حیدر نے بتایا کہ پانی کے ذخائر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اب تک ستلج ندی کے علاقے سے تقریباً 150,000 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ 2,100 ٹن ریلیف اشیاء متاثرہ اضلاع کو بھیجی جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو پر کام کرے گی۔
انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بہت سے لوگ ابھی بھی ندی نالوں اور دیگر خطرناک علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ریسکیو آپریشنز کو تیز رفتار اور مؤثر قرار دیا گیا جبکہ پاکستانی فلاحی اداروں کے کردار کی بھی تعریف کی گئی۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے مزید بتایا کہ 26 جون سے لے کر اب تک کے موسم سے متعلق تمام ڈیٹا جمع کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ سال حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں اور ملک کے گلیشیئرز کی حفاظت کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔
یہ بھبی پڑھیں: ملک کے مختلف شہروں میں تیز ہواؤں اور بارش کی پیشگوئی
ایک رکن قومی اسمبلی نے سوال کیا کہ کیا این ڈی ایم اے قبل از وقت وارننگز جاری کر سکتا ہے؟ جس پر جنرل حیدر نے جواب دیا کہ موسمی پیش گوئی بنیادی طور پر محکمہ موسمیات کی ذمہ داری ہے جبکہ این ڈی ایم اے کا کام نقصانات کا جائزہ اور ریلیف فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 7,500 گلیشیئرز ہیں جن میں سے کئی شمالی علاقوں میں تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
واضح رہے کہ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر گلیشیئرز مکمل طور پر پگھل گئے تو پاکستان کو خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو خوراک کی فراہمی اور پانی کی دستیابی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرے گا۔