
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 16 اگست کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاسوں کے منٹ آف دی میٹنگ پبلک کیے جس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔
دونوں ججز نے خط میں لکھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ دیا جس کو کمیٹی کی ہئیت تبدیل ہونے کے بعد بھی برقرار رکھا گیا مگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا، یہ پہلی بار نہیں تھا کہ ججز انتظامی کمیٹی کا فیصلہ رد کیا گیا ہو۔
خط میں دونوں جج صاحبان نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان نے جسٹس منصور علی شاہ کے اختلاف کے باوجود یہ طے کیا تھا کہ 26 نومبر 2024 کو ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے میٹنگ منٹس محدود رکھے جائیں گے اور ان کو پبلک نہیں کیا جائے گا تو پھر اچانک پبلک کیوں کرنا پڑے؟
یہ بھی پڑھیں: 26ویں ترمیم، چیف جسٹس کا جسٹس منصور کو لکھا گیا جوابی خط سامنےآگیا
منٹس کے حوالے سے دونوں ججز نے شکوہ کیا کہ ہمارے فیصلے پر چیف جسٹس کے لکھے گئے دونوں نوٹس ہمیں فراہم نہیں کیے گئے بلکہ چیف جسٹس نے اپنا نوٹ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں پڑھا حالانکہ جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر مجاز فورم نہیں تھا۔
ججز کے مطابق قانونی طور پر کمیٹی اجلاس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، اس لیے اکثریت کی بنیاد پر 4 نومبر کو فل کورٹ بنانے کا فیصلہ دیا گیا اور رجسٹرار کو ہدایات بھی جاری کی گئیں، تاہم اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔



