
وزیر ریلوے حنیف عباسی نے ریلوے کی صورتحال سے متعلق دستاویز قومی اسمبلی میں پیش کردی۔
دستاویز کے مطابق پاکستان ریلوے کے سگنل کا نظام 80 فیصد فرسودہ ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے، ریلوے کے 233 انجن 20 سال کی زندگی پوری کر چکے ہیں، 1183 ریلوے مسافر کوچز 35 سالہ عمر پوری کر چکی ہیں، 6 ہزار 823 مال بردار ویگنیں 45 سال کی مدت پوری کر چکی ہیں۔
ایم ایل ون کراچی پشاور ریلوے ٹریک 3 ہزار 110 کلومیٹر طویل ہے جس کا 72 فیصد زائد المیعاد ہو چکا ہے، ایم ایل ٹو، کوٹڑی،حبیب کوٹ، جیکب آباد ،ڈیرہ غازی خان،کوٹ ادو،اٹک سٹی ٹریک 1254 کلومیٹر طویل ہے جس کا 88 فیصد زائد المیعاد ہو چکا ہے۔
وزارت ریلوے کے مطابق ایم ایل تھری، روہڑی، سبی، کوئٹہ،تفتان ٹریک 991 کلومیٹر طویل ہے جس 92 فیصد زائد المیعاد ہو چکا ہے، برانچ لائن 3840 کلومیٹر طویل ہے جس میں سے 98 فیصد زائد المیعاد ہو چکی ہیں، پٹڑی کے بنیادی ڈھانچے کی حالت مناسب نہیں۔
دستاویز میں بتایا گیا کہ حفاظتی اقدامات کے طور پر ریلوے ٹریکس پر رفتار کم کی گئی ہے، ریلوے میں 80 فیصد فرسودہ ٹیکنالوجی،پرانے مکینیکل اور ریلے(relay) ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے، سگنل کا انفراسٹرکچر آلات کی چوری اور ماحولیاتی خطرات کے لحاظ سے غیر محفوظ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور سے راولپنڈی جانیوالی ٹرین حادثے سے بچ گئی
وزارت ریلوے کی جانب سے بتایا گیا کہ سگنل کا نظام آپریشنل تاخیر اور حفاظتی خطرات کا باعث بن رہاہے، پاکستان ریلوے کے پاس 1634 مسافر کوچز ہیں جن میں سے 1183 کوچز نے میعاد پوری کر لی ہے، ٹرین آپریشن کے لیے مسافر کوچز کی اوسط دستیابی صرف 1056 کوچز رہ گئی ہیں۔
پاکستان ریلوے کے پاس 11 ہزار 45 مال بردار ویگنیں ہیں ،6 ہزار 823 ویگن 45 سالہ زندگی گزار چکی ہیں، ٹرین آپریشن کے لیے مال بردار ویگنوں کی اوسط دستیابی صرف 6 ہزار 658 ویگنیں رہ گئی ہیں۔
محکمہ ریلوے کے مطابق پاکستان ریلوے کے پاس 4 سو 39 ڈیزل الیکٹرک لوکو موٹو ہیں جن میں سے 233 ریلوے انجن 20 برس کی زندگی پوری کر چکے ہیں، اس وقت صرف 294 لوکو موٹو ( ریلوے انجن ) دستیاب ہیں۔