
چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کےساتھ اختلاف ختم نہیں کررہا لیکن تعلقات کو بہتر بنانا میرے مقاصد میں شامل ہے، میں پی ٹی آئی سے اختلاف کو اختلاف تک رکھ کر تلخیوں کو دور کرنا چاہتاہوں، میں پی ٹی آئی کے تلخ رویے اور بد اخلاقی پر کوئی جواب نہیں دینا چاہتا۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مدارس بل پر حکومتی اتحاد کی بدنیتی ظاہر ہو چکی ہے ، صدر مملکت نے مدارس آرڈیننس ایکٹ پر دستخط کیے ہیں ، مدارس آرڈیننس کو توسیع دی جار ہی ہے مگر قانون سازی نہیں ہو رہی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مدارس ترمیمی بل کے حوالے سے حکومت کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں، مدارس ترمیمی بل کے حوالے سے فیصلہ وفاق المدارس اور تنظیمات مدارس کریں گے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ امن و امان اور شہریوں کی جان ومال کی ذمہ داری ریاست کی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کریں، عوام نے سوات سے لیکر وزیرستان تک چند گھنٹوں میں علاقے خالی کیے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت گری تو سیاست چھوڑ دوں گا، علی امین گنڈاپور
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں اپوزیشن پارٹیاں ایک مخصوص نشست کے لیے عدالتوں میں جا رہی ہیں، مسلم لیگ ن نے مخصوص نشست پر عدالت میں جے یو آئی کے خلاف کیس دائر کیا ہے ،موجودہ حالات میں مسلم لیگ ن کا یہ اقدام کس کو فائدہ دے گا؟
انہوں نے کہا کہ ایسی اپوزیشن کا میں کیا کرو ں جس کا ہر قدم صوبائی حکومت کے فائدے میں جا رہا ہے ،خیبر پختونخوا میں موجودہ اپوزیشن کے ساتھ ان حالات میں کیسے چلیں گے؟ ہم معتدل سیاست کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکمران بھی ہمیں لچر زبان میں جوا ب اور گالیاں دے رہے ہیں ،اپوزیشن جماعتیں بھی ہمارے خلاف عدالتوں میں جارہی ہیں، ایسی صورتحال میں خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد کا سوچنا غلط ہے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے ، ہم افغانستان کے خلاف پہلے کارروائی اور بعد میں بات چیت شروع کرتے ہیں، افغانستان کے خلاف کارروائی سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اور مذاکرات کا ماحول ختم ہو جا تا ہے۔
اس کو بھی پڑھیں: حکومت کی جانب سے 100 یونٹ تک مفت بجلی کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت پر ہم ایک بار ہاں کر چکے ہیں ، جے یو آئی آج بھی میثاق جمہوریت پر قائم ہے ، اگر سیاست دان میثاق جمہوریت پر عمل کریں تو ایک بہتر ماحول پیدا ہو سکتا ہے ،وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا جواب ان سے پوچھ لیں، غیر معقول سوال کا جواب میں کیوں دوں؟
انہوں نے کہا کہ میں نے خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد کی بات پی ٹی آئی کے خلاف نہیں کی، میں نے صرف مشورہ دیا ہے کہ صوبے میں تبدیلی کی ضرورت ہے، میں نے پی ٹی آئی کے اندر تبدیلی لانے کی بات کی ہے، میں نے سودا بازیوں اور ارکان توڑنے کی بجائے پی ٹی آئی کے اندر نئی ایڈمنسٹریشن کی بات کی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں خیبر پختونخوا سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں، آج بھی کہتا ہوں کہ اس صوبے کی اکثریت جعلی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے اور عدالت نے تسلیم بھی کیا ہے، ساری دنیا پی ٹی آئی کی حکومت مان رہی ہے، اس لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے، تاریخ فیصلہ کرے گی مینڈیٹ چوری کے حوالے سے ہمارا دعویٰ غلط تھا یا درست؟