
2000ء کی دہائی کے آغاز سے لے کر 2025 تک یہ خطہ ایک مسلسل بحران اور پیچیده سیاسی و سلامتی کے حالات سے گزرتا رہا ہے۔
مسلح تنظیموں کا ابھار اور ان کا بیانیہ
2000 ء کی دہائی کے آغاز سے بلوچستان میں مختلف مسلح تنظیمیں جنم لینے لگیں جن میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) شامل ہیں، ان تنظیموں نے ابتدا میں خود کو بلوچستان کے وسائل کے محافظ کے طور پر پیش کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم میں پاکستان مخالف بیانیہ نمایاں ہونے لگا۔
یہ گروہ ریاستی اداروں، سکیورٹی فورسز، گیس پائپ لائنوں، ریلوے ٹریکس اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے لگے۔
نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت: ایک نیا موڑ
2006 ء میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے بلوچستان کے حالات میں ایک سنگین موڑ پیدا کیا، وہ ایک بااثر قوم پرست رہنما تھے اور ان کی موت کو بلوچ عوام کی سیاسی شناخت پر حملہ سمجھا گیا۔
اس واقعے کے بعد ریاست مخالف جذبات میں اضافہ ہوا اور بہت سے نوجوان، جو پہلے پرامن تھے انہوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا، اس نئی تحریک کو وقت کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر بیرونی مدد بھی ملنے لگی۔
بھارتی مداخلت اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری
رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی بیرونی سرپرستی میں بھارت سرفہرست رہا، بھارت ان تحریکوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر کے داخلی انتشار کو ہوا دے رہا ہے۔
2016 میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری نے بھارت کا چہرہ پوری طرح سے عالمی سطح پر اجاگر ہوا جو اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت، انتشار اور بدامنی پھیلا رہا ہے اور فتنہ الہندوستان کی سرپرستی بھی کر رہا ہے۔
ریاستی ردعمل: فوجی کارروائیاں اور ترقیاتی اقدامات
ریاست پاکستان نے شورش پر قابو پانے کے لیے دوہری حکمت عملی اپنائی، ایک طرف فوجی آپریشنز کیے گئے اور دوسری طرف ترقیاتی منصوبے، تعلیمی وظائف اور روزگار کی اسکیمیں بھی متعارف کرائی گئیں تاکہ بلوچ عوام کو قومی دھارے میں لایا جا سکے۔
کئی عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے پر معافی دے کر معاشرے میں واپس لانے کی کوشش کی گئی تاہم ان اقدامات کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور اظہارِ رائے کی پابندیوں کی اطلاعات نے عوامی ناراضی اور بداعتمادی کو مزید بڑھا دیا۔
افغان طالبان کی واپسی اور علاقائی سلامتی
2021 میں جب افغان طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا اور سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو پاکستان کو توقع تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون میں بہتری آئے گی، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں پائی جانے والی کشیدگی اور شورش پر قابو پایا جا سکے گا۔
پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ چونکہ افغان طالبان پاکستان کے ساتھ مذہبی اور تاریخی وابستگی رکھتے ہیں اس لیے وہ فتنہ الہندوستان کو افغان سرزمین پر سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد بحال ہوگا۔
رپورٹس کے مطابق فتنہ الہندوستان نے افغانستان کے جنوبی اور سرحدی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہیں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس سب کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
اگرچہ طالبان حکومت نے عوامی سطح پر ان دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ وہ کسی بھی گروہ کو اپنی سرزمین پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر اس کے باوجود پاکستان کے تحفظات اب تک کم نہ ہو سکے۔
سیاسی عدم استحکام اور علاقائی جماعتوں کا کردار
بلوچستان میں سیاسی استحکام ایک مسلسل چیلنج رہا، وزرائے اعلیٰ کو بار بار سیاسی دباؤ یا اندرونی جماعتی اختلافات کی بنا پر تبدیل کیا گیا، بدعنوانی، کمزور حکمرانی اور خودمختاری کی کمی جیسے مسائل برقرار رہے۔
اگرچہ ماضی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن جیسی جماعتوں نے کچھ علاقوں میں اثر و رسوخ حاصل کیا مگر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) جیسی علاقائی جماعتیں بلوچ حقوق اور جبری گمشدگیوں کیخلاف مضبوط آواز بنی رہیں۔
2025 میں بلوچستان کی موجودہ حالت
آج بلوچستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، ریاستی سکیورٹی اداروں کی مسلسل کارروائیوں کے نتیجے میں کچھ علاقوں میں شورش کی شدت میں وقتی کمی ضرور آئی خاص طور پر کوئٹہ، نصیر آباد اور خضدار تاہم مکران، کیچ، پنجگور اور دُکی جیسے اضلاع میں اب بھی مسلح جھڑپیں، ٹارگٹ کلنگ، اور ریاست مخالف سرگرمیاں جاری ہیں۔
سکیورٹی آپریشنز کے باعث فتنہ الہندوستان پہلے سے زیادہ منقسم اور سیلولر ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ان کی کارروائیاں غیر متوقع اور منتشر ہو گئی ہیں۔
یہ گروہ اب زیادہ تر سٹریٹجک تنصیبات، سی پیک منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ ریاستی کنٹرول کو چیلنج کیا جا سکے تو دوسری جانب بلوچ مسئلے کا پائیدار حل سیاسی مکالمے، انصاف اور شفاف طرزِ حکمرانی سے ممکن ہے۔