عمر حیات کو ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا تاکہ میڈیا کیمروں سے شناخت نہ ہو سکے۔
عدالت میں سماعت کے دوران پراسیکیوٹر کی جانب سے ثناء یوسف قتل کیس کا ابتدائی متن پڑھ کر سنایا گیا۔ تاہم، اہم موڑ اس وقت آیا جب عدالت کو بتایا گیا کہ متعلقہ پراسیکیوٹر اور ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر غیر حاضر ہیں۔ اس پر ڈیوٹی مجسٹریٹ احمد شہزاد نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا قاتل گرفتار، فوٹیج سامنے آگئی
جج نے فوری طور پر ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کو عدالت میں بلانے کی ہدایت دی۔ اس موقع پر ڈیوٹی پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر چھٹیوں پر ہیں، جس پر جج احمد شہزاد نے کہا کہ "ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر آئے گا تو کیس آگے چلے گا۔" ان کے اس جملے سے عدالتی کارروائی میں موجود تمام افراد نے تناؤ محسوس کیا کہ کیس کی اہمیت کے باوجود ذمہ داران غیر سنجیدہ ہیں۔
وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جج احمد شہزاد نے تفتیشی افسر سے گفتگو کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا، "ویسے تو پراسیکیوٹر آتے نہیں، آج ہائی پروفائل کیس ہے تو سب پہنچے ہوئے ہیں۔"
عدالت نے آخر کار پراسیکیوشن کے دلائل اور تفتیشی ٹیم کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم عمر حیات کی شناخت پریڈ کی منظوری دے دی اور اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ اب ملزم کی شناخت پریڈ جیل میں ہوگی جس کے بعد کیس کی تفتیش مزید آگے بڑھے گی۔
واضح رہے کہ ثناء یوسف کا قتل ایک ہائی پروفائل کیس بن چکا ہے، جس پر سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت میں عدالت نے تفتیشی رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔