
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دینے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ نظر ثانی کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت کر رہے ہیں ؟ آپ کو تو اس کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا ہمارا انداز محبت والا ہے، ہم ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں مانے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھین لیا، یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے تنازع شروع ہوا۔ جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ سر یہ حقائق نہیں بتاؤں گا تو نئے ججز کو تنازع سمجھ نہیں آئے گا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو بطور جماعت ماننے سے انکار کر دیا، پی ٹی آئی امیدواروں کو طرح طرح کے انتخابی نشان جاری کیے گئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا ؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کیا اس کا ذکر رپورٹڈ فیصلے میں ہے، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے درخواست دائر کی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام نے درخواستیں دائر کیں، درخواستوں میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں، ان جماعتوں نے درخواست میں یہ بھی کہا یہ مخصوص نشستں ہمیں دی جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: بیرسٹر گوہر کا عید سے قبل عمران خان کی رہائی کا دعویٰ
جسٹس محمد علی مظہر نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصل کیس تھا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی سے نشستیں مل چکی تھیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قومی اور صوبائی اسمبلی کی 78نشستیں ہیں جن پر تنازع ہے، اگر یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دے دی جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ متنازعہ دو تہائی اکثریت ہوگی، جس روز انتخابی نشان الاٹ ہونے تھے اسی روز سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ دیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ہاں جو رات تک کیس سنا گیا اور فیصلہ دیا گیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اسی روز تحریک انصاف نے ایک نشان پر الیکشن لڑنے کیلئے تحریک انصاف نظریاتی کے ٹکٹس جمع کرائے، کچھ دیر بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین نے میڈیا پر آکر ٹکٹس سے انکار کر دیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو نشان دینے سے انکار کر دیا، مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست پشاور ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا یا سپریم کورٹ کا ؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں تو صرف تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کا مقدمہ تھا۔
فیصل صدیقی نے عدالت میں اکثریتی فیصلے کے پیرا گراف پڑھ کر سنائے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ حقائق پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کے دوران بھی تحریک انصاف نے سرٹیفیکٹس جمع کروائے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ فیصلے میں آدھے جیتے ہوئے امیدواروں کو حق دیا گیا کہ کسی سیاسی جماعت میں جائیں، کیا بہتر نہ ہوتا کہ تمام امیدواروں کو یہ حق دیا جاتا ؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں میری ہار میں ہی میری جیت ہے۔