اختیارات کو وسیع کر کے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت دوران ریمارکس دیئے کہ اختیارات کو وسیع کر کے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں
سپریم کورٹ کا آئینی بینچ/فائل فوٹو
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت دوران ریمارکس دیئے کہ اختیارات کو وسیع کر کے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے ؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ وزارت دفاع ایگزیکٹیو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹیو کیخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتی ہے ؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے ، آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹیو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتی، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹیو فیصلہ کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں انسداد دہشتگردی عدالتوں کا فورم موجود ہے ، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹیو خود کیسے جج بن سکتی ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا نہیں ہے آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں، اس میں مختلف دیگر کیٹیگریز شامل ہیں، میں آگے چل کر اس طرف بھی آوں گا، بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا ؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟جسٹس جمال مندوخیل

وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہوگا۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹس ٹرائل پر آرٹیکل 175 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کے ڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر کوئی عام شہری آرمڈ فورسز میں شامل ہو جائے تو وہ بنیادی حقوق کے تحت عام عدالتوں میں کسی معاملے کو چیلنج نہی کر سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا۔ جس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ جب آرمڈ فورسز کے فرائض کی انجام دہی میں کوئی شہری مداخلت کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانے کی کوشش کرتا ہے تو کیا یہ بھی آرمڈ فورسز کے فرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا، آپ کے دلائل سے تعریف اتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ سب کو پھر شامل کر لیا جائے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے، دوسرا حصہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا سوال بہت اہم ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کسی چیک پوسٹ پر سویلین کا تنازعہ ہو جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا نفاز کن جرائم پر ہوگا اسکا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اختیارات کو وسیع کر کے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔