عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ جلدہوگا: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

June, 14 2024
راولپنڈی: (سنو نیوز)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے راولپنڈی میں ایک تقریب کے دوران عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے جلد خاتمے کا عزم ظاہر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ادارے عدلیہ میں مداخلت میں ملوث ہیں، اور یہ مداخلت مولوی تمیز الدین کیس سے شروع ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے لیے ہمیں مداخلت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا تاکہ ہماری جوڈیشری بغیر کسی خوف، لالچ یا دباؤ کے اپنے فرائض سرانجام دے سکے۔
چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک جج سے فون پر بات ہوئی جس نے اپنے تجربات کا ذکر کیا۔ جج صاحب نے کہا کہ انہیں کوئی خوف نہیں اور وہ ایمانداری سے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججز پر دباؤ کے حوالے سے شکایات موصول ہوئی ہیں، مگر اللہ کا خوف رکھنے والے کسی بلیک میلنگ سے نہیں ڈرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2007 ءمیں عدالتی نظام کی خاطر اکیلا گھر سے نکل پڑا تھا اور آج بھی عدلیہ کی بہتری کے لیے بھرپور عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ عام شکایات میں یہ شامل ہے کہ جج صاحبان عدالتوں میں وقت پر نہیں آتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پنجاب میں بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایا گیا ہے تاکہ ججز کی حاضری کو یقینی بنایا جا سکے اور وقت پر نہ آنے والے ججز کے خلاف کارروائی ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ چند کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں اور کچھ ججز اپنے کام ریڈرز سے کروا کر چائے پی کر گھر چلے جاتے ہیں۔ کمرہ عدالت میں ججز کی موجودگی کو دیکھنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ جو ججز کمرہ عدالت میں موجود نہیں پائے گئے، ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ وکلا کی ہڑتال تھی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ وکلا کے تعاون سے پنجاب کی عدالتوں میں ہڑتال کلچر کا خاتمہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 8 مارچ 2024 ءکو فل کورٹ میٹنگ میں تمام ججز نے متفقہ طور پر ہڑتال کلچر کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ پیغام تمام جوڈیشل آفیسرز کو بتا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں بروقت فیصلے نہ ہونے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کئی مقدمات 30، 30 سال سے عدالتوں میں لٹک رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے اپنے رفقا سے مشورہ کیا اور دیکھا کہ مقدمات میں زیادہ تر تاریخیں اس وجہ سے پڑتی ہیں کہ ہر تاریخ پر گواہان نہیں آ سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر جو اورسیز پاکستانی ہیں، ان کی جائیدادوں پر یہاں قبضے ہو جاتے ہیں اور وہ جب پاکستان آتے ہیں تو جان بوجھ کر التوا کا شکار کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانون شہادت آرڈر کے آرٹیکل 164 میں ترامیم متعارف کرائی گئی ہیں جس کے تحت شہادت ویڈیو لنک، واٹس ایپ یا دیگر جدید طریقوں سے دی جا سکتی ہے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ جسٹس عالیہ نیلم اور ان کی ٹیم نے شب و روز محنت کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی جس میں انہوں نے ایس او پیز تیار کیے۔ مفرور کو ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی سہولت نہیں ہوگی، اسے عدالت میں آنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ فراڈ سے بچنے کے لیے بائیو میٹرک سسٹم اور شناختی کارڈ کی تصدیق شامل کی گئی ہے۔ بیرون ملک مقیم افراد صرف پاکستانی سفارت خانے میں جا کر اپنی شہادت ریکارڈ کروا سکیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے رپورٹ اور ایس او پیز کو منظور کر لیا ہے جس کے بعد پورے پنجاب میں ویڈیو لنک، واٹس ایپ کے ذریعے شہادت کی قلمبندی اور دیگر عدالتی کارروائیوں کی ریکارڈنگ کی منظوری دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کا دن پنجاب کے عوام اور ضلعی عدلیہ کے لیے تاریخی دن ہے کیونکہ آج سے باقاعدہ طور پر ای کورٹس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شہادتیں قلمبند کرنے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس طریقہ کار سے مقدمات کے التوا سے بچنے میں مدد ملے گی اور لوگوں کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے میں آسانی پیدا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی یافتہ ممالک کے جوڈیشل سسٹم کا جائزہ لیا ہے تاکہ اپنے عدالتی نظام میں بہتری لا سکیں اور مقدمات کے جلد اور فوری حل میں مدد حاصل ہو۔
ملک شہزاد احمد خان نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے جائیں گے اور عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا جلد خاتمہ یقینی بنایا جائے گا۔