علی ارشد میر ایک عہد کا نام

پنجابی ادب کی روایت میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو محض شاعر نہیں رہتیں بلکہ فکری حوالہ بن جاتی ہیں۔

پروفیسر علی ارشد میر بھی انہی ناموں میں شامل ہیں جنہوں نے پنجابی زبان کو صرف شعر نہیں دیا بلکہ ایک شعوری وقار عطا کیا، وہ استاد بھی تھے، محقق بھی اور ایسا فکری وجود بھی جس کی موجودگی سے مکالمہ جنم لیتا تھا۔

علی ارشد میر کی شاعری سطحی جذبات کا بیان نہیں بلکہ ایک گہرا فکری تجربہ ہے، ان کا کلام اس قدر مضبوط علمی بنیاد رکھتا ہے کہ بیرونِ ملک جامعات میں اسے تدریسی حیثیت حاصل ہے، یہ وہ شاعر تھے جن کے ہاں لفظ نہیں، مفہوم بولتا ہے اور زبان محض اظہار نہیں بلکہ شناخت بن جاتی ہے۔

جب انہیں بھارتی پنجاب کے سرکاری دورے پر مدعو کیا گیا اس دوران ان کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا،علی ارشد میر کی شاعری اور تاریخ پر گرفت نے وہاں کے بڑے ادبی حلقوں کو چونکا دیا۔

سرجیت پاتر جیسے معتبر شاعر ان کی فکری وسعت سے متاثر ہوئے، فلسفہ، دیو مالا اور عوامی تاریخ سب ایک ایسے استاد کے سامنے سمٹ آئے جو وقت کو مخاطب کر کے کہتا ہے:"لنگھ اوئے سمیا لنگھ"یہ مصرعہ اس بات کا اعلان ہے کہ یہ آواز کسی ایک خطے کی نہیں، یہ انسانی شعور کی آواز ہے۔

علی ارشد میر کے ہاں انسان مرکزی حیثیت رکھتا ہے، محبت، مزاحمت اور دھرتی کی خوشبو ان کی شاعری میں یوں رچی بسی ہے کہ الگ کرنا ممکن نہیں رہتا، ایسے اشعار پنجابی زبان کو محض خوبصورت نہیں بناتے بلکہ اس کے اندر روشنی بھر دیتے ہیں۔

ان کی لسانی مہارت غیر معمولی تھی، وہ پنجابی کے قدیم لہجوں، نایاب محاورات اور بھولے بسرے لفظوں کو اس مہارت سے برتتے کہ شعر گیت بن جاتا، انہوں نے زبان کو جدید بنانے کے لیے اس کی جڑیں کاٹیں نہیں بلکہ انہیں مزید مضبوط کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو پنجابی زبان کے ورثے کی ازسرِنو دریافت کہا جا سکتا ہے۔

علی ارشد میر کا کلام محض ادبی حسن تک محدود نہیں، یہ سماجی شعور کی تشکیل بھی کرتا ہے، وہ عام زندگی کے تجربات سے فلسفہ اخذ کرتے اور سماجی ناہمواریوں پر بے لاگ قلم اٹھاتے تھے، محنت کش، برابری اور آزادی ان کے مستقل موضوعات رہے۔

ستر کی دہائی میں لکھے گئے ان کے ترانے آج بھی مزدور تحریک کی یادداشت کا حصہ ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور کے سیاسی کردار، چاہے وہ کتنے ہی موقع پرست کیوں نہ ہوں، مزاحمت کی حرارت انہی نظموں سے حاصل کرتے رہے ہیں۔

علی ارشد میر کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ اپنے عہد کے پیچھے نہیں چلے بلکہ اس سے آگے کھڑے ہو کر سوال کرتے رہے، ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے اس لیے کہ وہ محض لکھی نہیں گئی تھی سوچی گئی تھی۔

درویش صفت شاعر، دانشور کی یاد میں سالانہ میلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کا مقصد ان کے افکار کا تواتر کے ساتھ پرچار کرنا ہے ۔