
رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کیئراسٹارمر اس اعلان کا ارادہ پہلے بھی رکھتے تھے، تاہم امریکی صدر کے برطانیہ کے دورے کے باعث اسے مؤخر کر دیا گیا۔
اسرائیلی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو خدشہ تھا کہ اگر یہ اعلان صدر کے قیام کے دوران کیا جاتا تو امریکا اس سے اختلاف کر سکتا تھا۔
اب امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کیئراسٹارمر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے روانگی سے قبل یہ اعلان باضابطہ طور پر کر دیں گے۔
مبصرین کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف برطانیہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کا عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے تعاون معطل کرنے کا اعلان
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہے تو اس اقدام سے یورپی ممالک پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔
اس فیصلے پر اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے ردعمل آنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ یہ اعلان فلسطین کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے، تاہم اس سے مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی بحث بھی چھڑنے کا خدشہ ہے۔